پشاور: داعش نے شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی

پشاور (ڈیلی اردو) صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی حکومت پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار کی شیعہ جامع مسجد میں جمعہ کو ہونے والے خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 63 ہو گئی ہے۔ دھماکے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

دھماکے میں جان سے جانے والوں کی نمازِ جنازہ و تدفین کا عمل بھی جاری ہے جب کہ کوچہ رسالدار کی فضا دوسرے روز بھی سوگوار ہے۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) کے ترجمان کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے پانچ افراد انتقال کرگئے جس کے بعد مجموعی اموات کی تعداد 63 ہوگئی ہے جب کہ 37 زخمی اب بھی زیرِ علاج ہیں۔

ترجمان کے مطابق 11 زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے جب کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

پشاور دھماکے میں جان سے جانے والوں میں قبائلی ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار اور ہنگو کے افراد بھی شامل تھے جب کہ زخمیوں میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں۔

پشاور دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے، جن کی نماز جنازہ جمعہ کی شب ادا کی گئی۔ اس دوران وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سمیت صوبائی وزرا ، پولیس اور سول انتظامیہ کے افسران بھی موجود تھے۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد میتوں کو آبائی علاقے روانہ کر دیا گیا۔

دوسری جانب دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے 32 کی نماز جنازہ جمعہ کی شب جب کہ کچھ کی ہفتے کو ادا کردی گئی جس کے بعد انہیں مختلف قبرستانوں میں سپردخاک کیا گیا۔

داعش کا ذمہ داری قبول کرنے کا دعوٰی

ادھر پشاور میں نمازِ جمعہ کے دوران شیعہ جامع مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم ‘داعش’ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

داعش کی نیوز ایجنسی ‘اعماق’ نے ایک بیان میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بیان کے مطابق حملہ آور نے پہلے سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی اور بعد میں امام بارگاہ کے اندر داخل ہوکر خود کو بارودی مواد سے اڑا دیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان میں ہونے والے بعض بم دھماکوں کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔

واقعے کا مقدمہ درج

علاوہ ازیں پشاور دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کرلیا گیا ہے۔

مقدمہ تھانہ کے آر ایس کے ایس ایچ او وارث خان کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں دفعہ 302، 324، 253، 427، اور انسداد دہشت گردی قانون کی دفعہ سات کو شامل کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے دھماکے کو خودکش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دھماکے سے قبل کوئی تھریٹ الرٹ موجود نہیں تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ ایک حملہ آور نے مسجد کے باہر ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار کو ہلاک کیا اور وہ مسجد میں داخل ہو گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ اندوہناک واقعہ ہے اور یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب آسٹریلیا کی ٹیم 24 برس کے طویل وقفے کے بعد پاکستان میں ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے۔

شیخ رشید احمد نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف سیکریٹری اور آئی جی خیبر پختونخوا سے اس واقعے کی رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔

پشاور پولیس نے تصدیق کی ہے کہ دو حملہ آوروں نے مسجد میں گھسنے کی کوشش کی اور اس سے قبل باہر موجود پولیس اہل کاروں کو نشانہ بنایا۔

پولیس حکام کے مطابق دھماکے میں پانچ سے چھ کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔

پشاور کے ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ بظاہر یہ ایک خودکش حملہ تھا جس کے دوران گیٹ پر موجود پولیس اہلکاروں کو پہلے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد حملہ آور نے مسجد میں گھس کر دھماکہ کیا۔

https://twitter.com/Natsecjeff/status/1499709188691402756?t=SdJHITFmNBjExEI00NCBCQ&s=19

ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے بتایا ہے کہ حملہ آور نے پہلے گیٹ پر موجود پولیس کے محافظوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل فرمان علی ہلاک جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوا۔

6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال ہوا، آئی جی خیبر پختونخوا

انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا معظم جا انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حملے کے وقت پولیس موقع پر موجود تھی اور عبادت گاہ کے باہر 2 اہلکار سیکورٹی تعینات تھے۔

انہوں نے کہا کہ حملے میں ایک کانسٹیبل فرمان علی موقع پر ہلال ہوا جبکہ دوسرے پولیس اہلکار نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے پستول سے فائرنگ اور پھر خودکش حملہ کیا گیا، دہشت گرد کالے کپڑوں میں ملبوس تھا جبکہ دھماکے میں 5 سے 6 کلوگرام دھماکا خیز مواد استعمال ہوا۔

آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ دھماکے کے حوالے سے کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک دہشت گرد کو دیکھا گیا ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ حملہ آور نے دھماکہ کرنے سے قبل فائرنگ بھی کی۔

https://twitter.com/IftikharFirdous/status/1499707741732065293?t=4VWlqhEAfAB1slmUjVXnfQ&s=19

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں زخمیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

اس واقعے کے عینی شاہد علی حیدر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت نمازِ جمعہ کی تیاری جاری تھی اس وقت کم از کم ایک حملہ آور پستول لے کر مسجد میں آیا اور نمازیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور فائرنگ کے بعد حملہ آور نے بم کا دھماکہ کیا۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1499728110908231684?t=pYg73keHwHZCs9V0PpjTbA&s=19

بی بی سی کے مطابق دھماکے کے بعد اہل علاقہ میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اور کسی بھی پولیس والے کو متاثرہ مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے تاہم کچھ دیر قبل ہی پاکستانی فوج کے اہلکاروں کے آنے پر صورتحال نارمل ہوئی۔

بی بی سی کے مطابق مرکزی مسجد کوچہ رسالدار پشاور میں مرکزی شیعہ مسجد ہے جہاں پر تقریباً پورے پشاور سے لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے آتے ہیں۔

کوچہ رسالدار انتہائی تنگ اور پیچیدہ گلیوں والا علاقہ ہے۔

واقعے کے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ تنگ راستوں کے باعث زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ جائے حادثہ تک گاڑی نہیں جا سکتی ہے۔

عینی شاہد کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ زخمیوں کو تین سے چار سو میٹر تک ہاتھوں اور چارپائیوں پر اٹھا کر سڑک تک پہنچایا گیا اور وہاں سے پھر ایمبولینس کے ذریعے سے ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔

ایک اور عینی شاہد کے مطابق مسجد میں جمعہ کا خطبہ جاری تھا کہ اس دوران پہلے انتہائی شدید فائرنگ ہوئی۔ ‘ایسے لگا کہ دو اطراف سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ فائرنگ کا سلسلہ شاید ایک یا دو منٹ تک جاری رہا ہو گا کہ اس کے بعد فوراً شدید دھماکے کی آواز آئی۔‘

‘مسجد کے در و دیوار دھماکے سے لرز اٹھے۔ یہ مسجد زیادہ بڑی نہیں ہے۔ اس میں 400 سے 450 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ واقعے کے وقت مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔‘

علاقے میں موجود ایک اور شخص کے مطابق اس وقت عوام انتہائی مشتعل ہیں۔ ‘وہ پولیس، حکومت اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کر رہے ہیں جبکہ تھوڑی دیر پہلے سکیورٹی دستے بھی موقع پر پہنچے ہیں۔

جائے وقوعہ سے ملنے والی ایک آڈیو میں سُنا جا سکتا ہے کہ لوگوں سے لاؤڈ سپیکر پر ہسپتال پہنچنے اور خون کے عطیات دینے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

پولیس اہلکار ہارون رشید نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ دو خودکش حملہ آوروں نے مسجد کے مرکزی دروازے پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا اور پھر وہ مسجد کے اندد داخل ہو گئے۔

انہوں نے زخمیوں کی تعداد 2 سو بتائی ہے، جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے، اس لیے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

ریسکیو کے ترجمان بلال فیضی نے بتایا ہے کہ مسجد منہدم ہو گئی اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش جاری ہے۔

ایس ایس پی آپریشنز نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے کوئی مخصوص تھریٹ الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ عمومی الرٹ کے تحت سکیورٹی تعینات تھی۔

وزیرِ اعظم کی مذمت

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پشاور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

عمران خان نے زخمیوں کو بہترین علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے انتظامیہ کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔

دھماکے کے فوری بعد امدادی ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ چکی ہیں جب کہ شہر کے بڑے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

صدر کا اظہار مذمت

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پشاور کی جامع مسجد میں دھماکے کی مذمت اور گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔

انہوں نے شہدا کے لواحقین سے اظہار ہمدردی، شہدا کے لیے دعائے مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔

شہباز شریف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی کوچہ رسالدار، پشاور میں مسجد میں خودکش دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی اور تعزیت کرتے ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود نمازیوں پر یہ اندوہناک حملہ کرنے والے نہ مسلمان ہو سکتے ہیں نہ ہی انسان۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی سنگین ہوتی صورتحال لمحہ فکریہ ہے، طویل عرصے سے بار بار توجہ دلا رہا ہوں کہ سر اٹھاتی دہشت گردی پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے، دہشت گردی کی واپسی ملک و قوم کے لیے نیک فال نہیں۔

مریم نواز

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ پشاور میں دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے شہروں میں پھر سے بارود کی بو پریشان کن ہے، جانوں کے نذرانے پیش کر کے قائم کیا گیا امن نااہلی کی نذر ہو گیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پشاور میں دہشت گردی پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے معصوم نمازیوں کو نشانہ بنا کر انسانیت پر حملہ کیا۔

انہوں نے دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو فوری گرفتار کیا جائے جبکہ زخمیوں کو علاج و معالجے کی بہتر سہولیات مہیا کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر حقیقی عملدرآمد نہ ہونا افسوسناک ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ پشاور دھماکا ایک بڑی سازش کی کڑی ہے، ہم نے ماضی میں بھی ایسی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے، انشاللہ اب بھی پاکستان کے دشمن ناکام ہوں گے۔

سینیٹر شیری رحمٰن

پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی پارٹی چیئرمین کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کہا کہ ‘نمازیوں پر حملہ تمام انسانیت پر حملہ ہے۔’

انہوں نے خطے میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے میں ناکامی پر حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

مولانا فضل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پشاور دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحومین کی مغفرت اور زخمیوں کی صحتیابی کی دعا کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے اور اتنی محنت سے حاصل کیا گیا امن اس نااہل حکومت کے ہاتھوں پھر سے تباہ ہونے کی طرف جارہا ہے۔

خیال رہے کہ قصہ خوانی بازار کا علاقہ ماضی میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں دکانیں اور ریستوران ہیں اور جمعے کو یہاں رش دیکھا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات محمد علی سیف نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ حملہ آور کا مسجد کے باہر پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد زوردار دھماکہ ہو گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جمعے کے روز مساجد کی سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں اور مذکورہ مسجد کے باہر بھی پولیس اہل کار تعینات تھے۔ تاہم اس کے باوجود یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔

فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ پاکستان میں ماضی میں بھی اقلیتوں کو اس طرح حملوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں پاکستانی طالبان اور ‘اسلامک اسٹیٹ‘ داعش کے جنگجو اس طرح کے کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔

پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا

جمعہ کی شام کو قصہ خوانی بازار دھماکے میں ہلاک ہونے والے 2 پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔

پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ پولیس لائنز پشاور میں ادا کی گئی جس میں پولیس کے دستے نے شہدا کو سلامی پیش کی۔

نماز جنازہ میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے شرکت کی جبکہ صوبائی کابینہ اراکین کامران بنگش، بیرسٹر محمد علی سیف، انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر سرکاری حکام بھی شریک ہوئے۔

واضح رہے کہ پشاور میں اسی نوعیت کا آخری بڑا حملہ جولائی 2018 میں ہوا تھا جب شہر کے یکاتوت علاقے میں خودکش حملے سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما ہارون بلور سمیت 19 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہارون بلور کو 2018 کے عام انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے دوران ہدف بنایا گیا تھا، جس میں وہ حلقہ پی کے 78 سے حصے لے رہے تھے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں