دہشت گردی کے پیچھے سب سے بڑی وجہ شدت پسندی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری

اسلام آباد (ڈیلی اردو) فواد چوہدری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے سب سے بڑی وجہ شدت پسندی ہے، شدت پسندی کو دشمن ہتھیار بنا لیتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی منبر، اسکول اور تھانہ کے کردار ادا نہ کرنے کا نتیجہ ہے، شدت پسندی کیخلاف بڑے اقدامات کرنے میں پارلیمان اور عدلیہ کا تعاون ناگزیر ہے۔

دوسری جانب پشاور کے قصہ خوانی بازار کوچہ رسالدار کی شیعہ جامع مسجد میں گزشتہ روز ہونے والے خود کش حملہ کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق خودکش حملہ آور کی شناخت مکمل کرلی گئی جبکہ دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ خودکش حملہ آور اور دو سہولت کاروں کے اسکیچز مکمل کر لیے گئے ہیں۔

تفتیشی ٹیم کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والے اعضاء کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔ پولیس ذرائع کے مطابق واقعہ میں ملوث مکمل گروپ کی گرفتاری کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ واقعے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کر دیا گیا۔ ایف آئی آر میں قتل، اقدام قتل اور دہشتگردی کی دفعات شامل ہیں۔

خود کش دھماکے میں ہلاک ہونے والے 30 سے زائد افراد کی اجتماعی نماز جنازہ گزشتہ شب جبکہ 10 افراد کی نماز جنازہ آج کوہاٹی میں ادا کی گئی۔ نمازجنازہ کے موقع پر سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے۔

خیال رہے گزشتہ روز پشاور کے قصہ خوانی بازار میں شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے میں 63 افراد ہلاک جبکہ 200 زخمی ہوئے، شہدا میں دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ ریسکیو اہلکاروں نے زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا، دھماکے میں 5 سے 6 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔

آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے مسجد کے گیٹ پر پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی، حملے کا پیشگی تھریٹ نہیں تھا، دہشتگردی میں پانچ سے چھ کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے منبر کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

گرشتہ روز پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میں شیعہ مسلک کی مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 63 تک پہنچ گئی ہے۔

ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال محمد عاصم اور پشاور پولیس کے سربراہ محمد اعجاز خان نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ (داعش) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

اس حوالے سے دولتِ اسلامیہ کے خبر رساں ونگ اعماق نے اپنی ویب سائٹ پر ایک پریس ریلیز اور مبینہ حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی ہے۔

دوسری جانب تحریکِ طالبان پاکستان نے کہا ہے کہ ’فرقہ وارانہ جنگیں اسلام اور عالمِ اسلام کے مفاد میں نہیں‘، اس لیے وہ پشاور میں ہونے والے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں