افغانستان: 7 ماہ بعد لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھلنے کے چند گھنٹے بعد ہی بند کرنے کا حکم

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) افغانستان کی طالبان حکومت نے ملک بھر میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھلنے کے چند گھنٹے بعد ہی انہیں بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش سے متعلق احکامات نے طالبات اور والدین کو پریشان کر دیا ہے۔

ملک بھر میں لڑکیوں کے وہ اسکول جو ویران پڑے تھے اب وہاں دوبارہ زندگی لوٹ آئی تھی اور وہ سات ماہ بعد اسکول کھل گئے تھے اور پہلے روز کلاسز میں حاضری بھی زیادہ تھی لیکن اسکول کھلنے پر طالبات کی خوشی عارضی ثابت ہوئی۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق طالبان حکام نے حکم دیا ہے کہ طالبات کے اسکولوں کو بند کر دیا جائے۔ یہ احکامات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب اسکول کھلے چند ہی گھنٹے ہوئے تھے۔

فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ طالبات کے سیکنڈری اسکولوں کی بندش کے احکامات کے پسِ پردہ کیا وجوہات ہیں۔

افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘باختر نیوز ایجنسی’ نے وزارت تعلیم کے حوالے سے بتایا ہے کہ چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کے ہائی اسکولوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ان اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کو اگلے احکامات تک ملتوی کردیا گیا ہے۔

نئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ شرعی اور افغان روایات اور ثقافت کے مطابق جب امارت اسلامیہ کوئی جامع منصوبہ بنا لے گی تو ہائی اسکولوں کو باضابطہ طور پر مطلع کیا جائے گا۔

تاہم اس سے قبل افغانستان کی وزارتِ تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان نے طالبات کے اسکول کھلنے کے دن کو تمام افغان شہریوں کے لیے تاریخ ساز قرار دیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تعلیم ہر مرد اور عورت پر فرض ہے اور اسلامی امارت یہ تسلیم کرتی ہے کہ خواتین کو ایک خاص دائرہ کار میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو تعلیم کے شعبوں میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ مستقبل میں افغان عوام کی بہتر انداز میں خدمت کر سکیں۔

دوسری جانب خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد نے بھی اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا تھا۔

’یہ طالبان کی یقین دہانیوں اور بیانات کے خلاف اقدام ہے‘

افغانستان میں امریکہ کے سفارت خانے میں چارج ڈی افیئرز ایان میک کری کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی پریشان ہیں کہ طالبان ثانوی جماعتوں سے آگے کی طالبات کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے رہے۔

ان کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں طالبان کے اقدام پر ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی مایوس کن ہے جب کہ طالبان کی جانب سے دی گئی یقین دہانیوں اور بیانات کے بھی خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے تمام نوجوانوں کو حق حاصل ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔

افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے معاون مشن نے بھی طالبان کی جانب سے ثانوی تعلیمی اداروں سے آگے طالبات کی تعلیمی اداروں میں آمد پر پابندی برقرار رکھنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

‘خوش تھے کہ سات ماہ کے انتظار کے بعد اسکول کھل رہے ہیں’

سات ماہ بعد اسکول کھلنے کے اعلان اور پھر بندش پر کئی افغان طالبات کی طرح دسویں جماعت کی طالبہ نسرین استنکزئی بھی مایوس ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پچھلے سات ماہ سے وہ گھر تک ہی محدود تھی اور جب وہ بدھ کو اپنے اسکول آئیں تو خوشی کی انتہا نہیں تھی لیکن محض چند گھنٹوں بعد ہی یہ خوشی اداسی میں بدل گئی۔

نسرین کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے ایک ہفتہ قبل سے ہی تمام تیاریاں مکمل کر لی تھی، اپنا بیگ اور کپڑے تیار کیے تھے۔ بدھ کو کلاس میں اپنی سہیلیوں اور اساتذہ سے مل کر بہت خوشی ہو رہی تھی کہ اچانک کلاس روم میں یہ خبر سنی کہ اسکول دوبارہ بند ہو رہے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ اب انہیں کچھ پتا نہیں کہ تعلیمی ادارے کب کھلیں گے اور وہ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کریں گی جس کا پہلے ہی بہت حرج ہو چکا ہے۔

گزشتہ سال اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے کئی حکم نامے جاری کیے تھے جن میں خواتین کی ملازمت، سفر اور لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی جیسے اعلانات شامل تھے۔ جس کے بعد عالمی برادری نےنہ صرف طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاتھا بلکہ اوسلو کانفرنس کے موقع پر مغربی ممالک کے نمائندوں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد کو ملک میں خواتین کے حقوق، تعلیم، آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی فراہمی سے مشروط کیا تھا۔

بین الاقوامی دباؤ ، سخت اقتصادی حالات اور امداد پر عائد شرائط نے طالبان کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔رواں برس جنوری میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر تمام تعلیمی مراکز کھولنے کا عندیہ دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں