عبدالحفیظ بلوچ: قائداعظم یونیورسٹی کے’لاپتہ‘ طالبعلم کیخلاف دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے لاپتہ طالبعلم عبدالحفیظ بلوچ کی بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

سی ٹی ڈی بلوچستان کا دعویٰ ہے کہ عبدالحفیظ بلوچ سے 15 مارچ کو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

خضدار میں عبدالحفیظ بلوچ کے ایک قریبی رشتہ دار نے اس بات کی تصدیق کی کہ حفیظ کی گرفتاری ظاہر کی گئی تاہم انھوں نے سی ٹی ڈی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

انھوں نے بس اتنا کہا کہ ’ہم ایک اذیت ناک صورتحال سے گزرے ہیں۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرے۔‘

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے مطالبہ کیا ہے کہ حفیظ بلوچ پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالبعلم حفیظ بلوچ کے رشتہ داروں نے نہ صرف 8 فروری کو بلوچستان کے شہر خضدار سے ان کی جبری گمشدگی کا الزام عائد کیا تھا بلکہ ان کے والد کی جانب سے تھانہ خضدار میں اغوا کا مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا۔

ان کے والد کی جانب سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ان کے بیٹے عبدالحفیظ جنوری کے آخری ہفتے میں چھٹیوں پر اسلام آباد سے خضدار آئے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق ’وہ شام کو ایک مقامی ادارے میں بچوں کو پڑھانے جاتے تھے۔ آٹھ فروری کے روز بھی وہ بچوں کو پڑھانے کے لیے اکیڈمی میں تھے کہ وہاں سیاہ رنگ کی ایک گاڑی میں تین نقاب پوش مسلح افراد آئے۔ ان میں سے دو افراد کلاس روم میں آئے اور عبدالحفیظ کو طلبا کے سامنے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔‘

حفیط بلوچ کی بازیابی کے لیے نہ صرف بلوچستان بلکہ اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔ اسلام آباد میں ان کی بازیابی کے لیے ایک احتجاجی کیمپ بھی قائم کیا گیا۔

حفیظ بلوچ کے خلاف درج ایف آئی آر

سی ٹی ڈی نصیر آباد کے تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق حفیظ بلوچ کی گرفتاری 15 مارچ کو عمل میں لائی گئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’مخبر خاص نے اطلاع دی کی ایک نوجوان جو کالعدم تنظیم بی ایل اے اسلم گروپ کا کارکن ہے ایک سیاہ بیگ اٹھائے مشکوک حالت میں جھل مگسی کے راستے سے جعفر آباد کی جانب پیدل آ رہا ہے۔‘

ایف آئی آر کے مطابق اس اطلاع پر سیف آباد شاخ کے علاقے جعفرآباد گوٹھ محمد مٹھل مگسی پہنچ کر ناکہ بندی کی گئی۔ دوران ناکہ بندی دن دو بجکر 30 منٹ پر ایک نوجوان بیگ اٹھائے پیدل آتے ہوئے دکھائی دیا۔

’ان کو نہایت حکمت عملی سے قابو کیا گیا اور نام و پتہ دریافت کرنے پر انھوں نے اپنا نام عبدالحفیظ عرف حفیظ ولد حاجی محمد حسن قوم باجوئی ساکن کلی باجوئی باغبانہ خضدار بتایا۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’بیگ کی تلاشی لینے پر اندر دھماکہ خیز مواد اور نٹ بلٹ پائے گئے۔ ڈیجیٹل ترازو میں وزن کرنے پر دھماکہ خیز مواد کا وزن 200 گرام جبکہ لوہے کے نٹ بلٹ کا وزن 400 گرام تھا۔ اس کے علاوہ ان سے تار وغیرہ بھی برآمد ہوا۔‘

دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کے الزام میں ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ہتھکڑی لگی تصویر

گرفتاری ظاہر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر حفیظ بلوچ کی ایک تصویر بھی سامنے آئی ہے، جس میں وہ درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہے۔

تصویر میں حفیظ بلوچ کے بال چھوٹے ہیں اور وہ سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہیں۔ ان کے ساتھ سادہ کپڑوں میں دو دیگر افراد بھی نظر آ رہے ہیں تاہم ان میں سے صرف ایک کا چہرہ نظر آ رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں