مدثر نارو اور حفیظ بلوچ: جبری گمشدگی بغاوت ہے اور اس پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ملک کی آٹھ خفیہ ایجنسیاں حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں تو پھر اس کے ذمے دار چیف ایگزیکٹو ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعے کو بلاگر مدثر نارو اور دیگر دوسری جبری گمشدگیوں سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے انھوں نے ریمارکس دیے کہ ’جبری گمشدگی بغاوت ہے اور اس پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت چلنے والے ملک میں جبری گمشدگیاں ناقابل قبول ہیں۔

اپنی اہلیہ صدف اور اس وقت چھ ماہ کے بیٹے سچل کے ہمراہ ملک کے شمالی علاقوں میں گھومنے کی غرض سے گئے مدثر نارو اگست 2018 میں لاپتہ ہو گئے تھے اور اس کے بعد سے ان کی موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے عدالت کو بتایا کہ ’ملک کے سکیورٹی اداروں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر مدثر نارو کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی سے متعلق بنائے گئے کمیشن نے بھی مدثر نارو واقعے کو جبری گمشدگی کی کیٹیگری میں شامل نہیں کیا۔‘

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’وزیر اعظم سے لاپتہ مدثر ناور کے خاندان کے افراد کی ملاقات کرائی گئی تھی اس کا کیا بنا؟‘ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مدثر نارو کے حوالے سے ملک بھر کے سکیورٹی اداروں نے بہت کوشش کی ہے لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت بتایا کہا کہ دریائے کنہار کے کنارے سے کسی کی لاش بھی ملی تھی مگر وہ مدثر نارو کی نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت توقع کر رہی تھی کہ وفاقی حکومت مدثر نارو کی والدہ اور بیٹے سے ملاقات کرنے کے بعد ہِل جائے گی، اور آئندہ سے کوئی لاپتہ نہیں ہو گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آج تک کسی کو ایسے واقعات میں ملوث ہونے کا ذمہ دار نہیں ٹھرایا گیا۔‘

مدثر نارو کی گمشدگی کے بارے میں اس سال عدالت میں جمع کروائی گئی پٹیشن کے مطابق 2018 کے انتخابات کے چند روز بعد ان کو فون پر کہا گیا کہ وہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’کیا مدثر نارو کو بازیاب کروانا ریاست کی ناکامی نہیں ہے؟ انھوں نے کہا کہ یہاں حالت یہ ہے کہ بلوچستان کے طلبہ کب سے احتجاج پر بیٹھے ہیں لیکن حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ریاستی ادارے ایگزیکٹیو کے کنٹرول میں نہیں ہیں تو پھر چیف ایگزیکٹو اس کے ذمہ دار ہیں۔‘

عدالتی معاون فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ’جبری گمشدگیوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قانون سازی کر کے سب کو بتا دیا جائے کہ جبری گمشدگیاں ریاست کی پالیسی نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں شروع سے ہی پیچیدگی رکھی گئی تاکہ جبری گمشدگیوں کے واقعات کی ذمہ داری کسی پر نہ آئے۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سنہ 2011 میں بنائے گئے حراستی کمیشن کے بارے میں جو رپورٹ دی گئی اس میں کہا گیا کہ ان حراستی مراکز میں 1500 سے لے کر دو ہزار تک افراد موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس ان حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بہت سے لاپتہ افراد ان حراستی مراکز سے برآمد ہوتے ہیں، عدالتی معاون نے تجویز دی کہ ‏ریاست کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہریوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی ٹریبیونل بنائے جائیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد سے متعلق کسی قسم کی تحقیقات میں ریاست مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔‘

’وزیر داخلہ سے طلبہ کی ملاقات فائدہ مند نہیں بلکہ ہتک آمیز تھی‘

لاپتہ بلوچ طالبعلم حفیظ بلوچ کی بازیابی اور بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ ’قائداعظم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا کے ایک وفد کی وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سے ملاقات کروائی گئی تھی۔‘

درخواست گزار کی وکیل اور انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ وزیر داخلہ سے طلبہ کی ملاقات فائدہ مند نہیں بلکہ ہتک آمیز تھی۔

انھوں نے کہا کہ بلوچ طلبا کے وفد نے وفاقی وزیر داخلہ کے سامنے اپنے مسائل رکھے تو شیخ رشید نے ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے صرف اسی بات پر اکتفا کیا کہ وہ تو ’ایک دن کے مہمان ہیں۔‘

ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ انھیں وزیر داخلہ سے زیادہ عدالت سے امید ہے کہ ان کے مسائل حل ہوں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کا چانسلر کون ہے تو عدالت کو بتایا گیا کہ صدر مملکت اس یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صدر پاکستان یعنی یونیورسٹی کے چانسلر اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی طالب علم کو ہراساں نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کا طالب علم عبدالحفیظ بلوچ جو لاپتہ ہے اس کا کیا بنا؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ طالبعلم خضدار کے تھانے میں ہے اور اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے لاپتہ طالبعلم عبدالحفیظ بلوچ کی بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

سی ٹی ڈی بلوچستان کا دعویٰ ہے کہ ’عبدالحفیظ بلوچ سے 15 مارچ کو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔‘

عدالت نے قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کی ہراسانی اور ان کی پروفائلنگ کے واقعات سے متعلق تحققیات کر کے ایک ہفتے میں عدالت میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں