وزیرستان: یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے ساری زندگی اپنے بے گناہ خاندان والوں اور دوستوں کی لاشیں اٹھائیں

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’بھائی نے مجھے وقوعہ سے قبل رات کو بتایا تھا کہ انھیں اور ان کے دوستوں کو ہدایت اللہ نے اپنی منگنی کی خوشی میں کھانے کی دعوت دی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ اچھا موقع ہے۔ اس میں ہم یوتھ آف وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دوست ہوں گے۔ ان کے ساتھ مستقبل میں امن اور دیگر معاملات پر جدوجہد تیز کرنے کی بھی بات ہوجائے گی۔‘

یہ کہنا تھا شمالی وزیرستان میں قتل ہونے والے انجینیئر اسد اللہ داوڑ کے بھائی انجینیئر اسرار اللہ کا ہے۔ اتوار کو صوبہ خیبرپختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اسد سمیت امن کے قیام کے لیے کوششیں کرنے والے چار دوستوں کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

اسرار کہتے ہیں ’اسد کے لیے یہ ایک معمول بات تھی۔ وہ اکثر دوستوں کو اپنے پاس دعوت دیتے اور ان کے پاس دعوت پر بھی جاتے۔ جب وہ مجھے یہ بتا رہے تھے تو اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ ان کو روک لوں مگر میں چھوٹا اور وہ بڑے تھے، روک نہ سکا۔ آج سوچتا ہوں کہ اس وقت روک لیتا تو کتنا اچھا ہوتا۔‘

انجینیئر اسد اللہ داوڑ ایک طویل عرصے سے سیاست میں تھے۔ انھوں نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا۔ ’ہم لوگ جماعت اسلامی کے قریب ترین ہیں۔ اسد زمانہِ طالب علمی میں ایبٹ آباد اور بنوں میں اسلامی جمیعت طلبا کے رہنما رہے۔ زمانہِ طالب علمی ہی میں وہ وزیرستان کے مسائل پر بات کرتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے یوتھ آف وزیرستان تنظیم قائم کرنے میں دیگر کے ہمراہ اہم کردار ادا کیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسد کی چند ماہ قبل محکمہ صحت میں بحیثیت انجینیئر ملازمت ہوئی تھی۔ ’وہ اس ملازمت کو لے کر بہت پُرجوش تھے کہ لوگوں کی خدمت کرسکیں گے۔ ان کے اندر خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ الخدمت میں بہت فعال تھے۔‘

اسرار بتاتے ہیں کہ ’وزیرستان کے تقریباً سو کے قریب یتیم طالب علموں کی تعلیم اور دیگر اخراجات الخدمت کی مدد سے پورے کر رہے تھے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ جلد ہی الخدمت کا منصوبہ آغوش سینٹر وزیرستان میں بھی قائم کیا جائے گا۔‘

یہ جتنے لوگ وقوعہ والے روز کھانے پر اکٹھے ہوئے، مختلف نظریات اور سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ان کے درمیان ایک بات مشترک تھی کہ یہ سب وزیرستان میں امن و سلامتی اور ترقی کی بات کرتے تھے۔

’ڈگری پوری کرنے میں دو ماہ رہ گئے تھے‘

اسد نے سوگواروں میں بیوہ اور تین کم عمر بچیاں چھوڑی ہیں۔ اسرار کہتے ہیں کہ ’ہم چھ بھائی ہیں۔ اسد اللہ تیسرے نمبر پر تھا۔ ہم بھائی ابھی بھی یقین نہیں کر رہے ہیں کہ انجینیئر اسد اللہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نہیں کہتا آپ وزیرستان میں بچے بچے سے پوچھ لیں وہ انتہائی بہادر اور ملنسار تھے۔ بُرے سے بُرے حالات میں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔‘

میر ولی اللہ وزیرستان میں قتل ہونے والے چاروں دوستوں کے مشترک دوست ہونے کے بعد وقوعہ والے روز منعقد ہونے والے کھانے کی دعوت میں شریک تھے۔

’ابھی تک یقین نہیں کر پا رہا،‘ انھوں نے یہ ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے چاروں دوست اب اس دنیا میں موجود نہیں۔ کھانے کی دعوت میں ہمارا موضوع وزیرستان کے مسائل اور ان کا حل تھا۔ اس پر بات ہو رہی تھی کہ ہمیں اب اپنی جدوجہد کو تیز کرنا چاہیے کہ حالات بہت خراب ہو رہے ہیں۔‘

میر ولی اللہ کا کہنا تھا کہ وزیرستان کے حالات کے بعد ہماری بات چیت کا محور سنید احمد تھے جو کہ لاہور کے تعلیمی ادارے لاہور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے سوگواروں میں دو بچیاں، ایک کم عمر لڑکا اور بیوہ چھوڑی ہے۔ سنید نے کچھ عرصہ قبل ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کی قائم کردہ تنظیم نینشل ڈیموکریٹک موومنٹ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

میر ولی اللہ کہتے ہیں کہ سنید احمد نیشنل ڈیموکریٹک میں فعال کردار ادا کر رہے تھے۔ ’ہم دوستوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ وہ سیاست میں فعال کردار ادا کرتے ہیں یا کس سیاسی تنظیم اور نظریات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم تو دوست کی دوستی کو دیکھتے ہیں۔ مگر ہم چاہتے تھے کہ اس موقع پر وہ اپنے مستقبل کی طرف بھی توجہ دیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سنید احمد کے والد کچھ سال قبل اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بیرونی ملک سے واپس آگئے تھے۔ ’جو جمع پونجھی تھی وہ سب کی سب انھوں نے بچوں پر خرچ کر دی۔ ان کے ایک اور بھائی زیادہ پڑھ لکھ نہیں سکے اور وہ اس وقت شمالی وزیرستان کے ایک بازار میں ہتھ ریڑھی چلاتے تھے۔‘

میر ولی اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہم سب دوستوں نے اس موقع پر سنید احمد پر غصہ کیا۔ ان سے کہا سیاست کرنی ہے تو کرو ضرور کرو مگر اب آپ کو کوئی کام کرنا چاہیے۔ ملازمت نہیں ملتی تو کوئی کاروبار کرو۔ کاروبار نہیں ہوسکتا تو محنت مزدوری کرو۔‘

’سنید احمد کا کہنا تھا کہ ڈگری پوری کرنے میں دو ماہ رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد وزیرستان میں آّکر اکیڈمی کھولوں گا جہاں پر مستحق طالب علموں کو مفت تعلیم میں مدد دوں گا۔ اس طرح روزگار کا ذریعہ بھی پیدا ہوجائے گا اور میں سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ وزیرستان کے مسائل پر بات کرسکوں گا۔‘

قبائلی اور بلوچ طلبہ کے حقوق کا علم بردار

محمد مزمل کاکٹر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ پنجاب میں طلبہ ایکشن کمیٹی کے کنوینر رہ چکے ہیں۔ سنید احمد کے ساتھ ان کا تعلق برسوں پر محیط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنید ’ایک ترقی پسند فعال سیاسی کارکن‘ تھے۔

’ہم لوگ پنجاب میں بلوچ، پختون اور قبائلی طلبہ کے حقوق کی آواز بلند کرتے تھے۔ اس میں سب سے توانا آواز سنید احمد کی ہوتی تھی۔‘

محمد مزمل کاکٹر کہتے ہیں کہ وہ ایک بہترین مقرر تھے جو ہر احتجاج میں پیش پیش ہوتے تھے۔ ’ہم لوگوں نے قبائلی اور بلوچستان کے طلبہ کے حقوق بالخصوص سکالر شپ کے لیے جتنی بھی مہمات چلائیں ان سب کی منصوبہ بندی سنید احمد کرتے تھے۔‘

محمد مزمل کاکٹر کہتے ہیں کہ وہ قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا سے لاہور پہچنے والے تمام پختون طلبہ کی میزبانی کرتے تھے۔ ان مختلف تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے رہنمائی کرتے اور ان کے مسائل حل کرتے تھے۔ اس وقت لاہور کے اندر کئی درجن طالب علم ایسے ہوں گے جو سنید احمد کی رہنمائی کی بدولت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے قبائلی علاقہ جات میں تعلیم پھیلانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کے لیے وہ مختلف منصوبوں پر غور کررہے تھے جب کہ عملی طور پر انھوں نے بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں لائبریریاں قائم کرنے کے لیے پنجاب بھر میں مہم چلائی تھی۔ سنید احمد نے قبائلی علاقہ جات میں کئی لائبریریاں قائم کی تھیں۔

میر ولی اللہ کا کہنا تھا ’قتل ہونے والے ہمارے ایک اور دوست وقار احمد گورنر ماڈل سکول وزیرستان میں بحیثیت استاد خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ بیالوجی کے استاد تھے اور بہت لائق فائق شخصیت تھے۔ انھوں نے سنید احمد کو کہا کہ وہ ان کے ساتھ اکیڈمی میں مدد کریں گے اور بیالوجی کا مضمون پڑھائیں گے۔‘

طلبہ کو انتہا پسندی سے دور رکھنے والے استاد

میر ولی اللہ کا کہنا تھا کہ سنید احمد کا منصوبہ سب کو پسند آیا تھا۔ ’سب نے ان سے کہا تھا کہ وہ اس منصوبے کو جلد پایہ تکمیل تک پہچائیں اس کے لیے ہم سب ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ سب سے زیادہ پُرجوش وقار احمد تھے۔ وہ ان کو اس موقع پر مختلف مشورے بھی دے رہے تھے۔‘

میر ولی اللہ کا کہنا تھا کہ وقار احمد نے ایک بچہ اور بیوہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ ’وہ قوم پرستی کی سیاست کے قریب ترین تھے۔ ان کا زیادہ جھکاؤ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف تھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ایسے استاد تھے جنھوں نے یہ پیشہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ بحیثیت استاد وہ بہت اچھے طریقے سے وزیرستان کے طالب علموں کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔‘

’ہمہ وقت اپنے طالب علموں کے ساتھ مصروف رہتے۔ کلاس ہی نہیں بلکہ کلاس کے بعد وہ طالب علموں کی مدد کر رہے ہوتے۔ یہ مدد صرف سکول کے سبق تک نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ طالب علموں کو انتہا پسندی سے بھی دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔‘

میر ولی اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اکثر طالب علموں کو بتا رہے ہوتے تھے کہ علاقے میں موجود انتہا پسندی نے کتنی جانیں لیں اور اس سے علاقے کے بچوں اور طالب علموں پر کیا منفی اثرات مرتب ہوئے۔ „وہ طالب علموں کو سمجھا رہے ہوتے تھے کہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنا ہے تو صرف پڑھنا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ عماد داوڑ سب سے چھوٹے اور ’ہمارے بہت پیارے‘ تھے۔ ان کے مطابق وہ ریسکیو 1122 میں خدمات انجام دیتے تھے۔ ’دعوت کے موقع پر سب سے زیادہ ساتھ ہنسی مذاق ان ہی کے ساتھ چلتا رہا تھا۔‘

’عماد داوڑ کی دو ماہ قبل شادی ہوئی تھی‘

میر ولی اللہ کہتے ہیں کہ عماد داوڑ کے ساتھ دوستی کی وجہ یوتھ آف وزیرستان ہی ہے۔ ’کچھ عرصہ قبل وہ ریسکیو 1122 میں بھرتی ہوئے۔ تقریباً دو ماہ قبل ان کی شادی ہوئی۔ ان کی نئی نئی شادی تھی، اس موقع پر ہم سب دوست ان کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہے تھے۔‘

عماد نے سوگواروں میں نئی شادی شدہ دلہن چھوڑی ہے۔ ’ابھی انھوں نے اپنی زندگی مکمل طور پر شروع بھی نہیں کی تھی کہ ان کی زندگی ختم ہوگئی۔ ایسا صرف عماد ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہمارے تینوں دوستوں نے کم عمر بچے یتیم چھوڑے ہیں۔‘

ان سب کے دوست ہدایت اللہ کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ عماد سے ایک شاندار دعوت کا بھی تقاضا کرتے رہے تھے۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی اس کا انتظام کریں گے۔ عماد سے مختلف ریسکیو آپریشنز کی تفصیلات بھی سنتے رہے۔‘

ہدایت اللہ کہتے ہیں کہ ’ہم قبائلی لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں عیدوں اور پھر عید الضحی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اکثر ہمارے لوگ جو دور دراز محنت مزدوری کرنے گئے ہوتے ہیں وہ عیدوں کے موقع پر گاؤں میں آتے ہیں۔ ان سے میل ملاقات کی سب کو خواہش ہوتی ہے۔‘

ان کا کہا تھا انجینیئر اسد، وقار احمد، سنید احمد اور عماد کے ساتھ عید کا خصوصی پروگرام بھی تربیت دیا گیا تھا۔

ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ ہم سب وہ دوست تھے جو کئی برسوں سے ساتھ تھے۔ ہمارے درمیان رابطے کا بڑا ذریعہ یوتھ آف وزیرستان تنظیم تھی جو وزیرستان میں امن، خوشحالی اور تعلیم کی بات کرتی تھی۔ ’ہماری ساری سرگرمیاں اس ہی مشن کے آگے پیچھے چلتی تھیں۔‘

’لاشیں اٹھانے کے بعد بھی ان کے جذبے کم نہیں ہوئے‘

میر ولی اللہ کہتے ہیں کہ اسد اپنی کار میں آئے تھے اور خود موٹر سائیکل پر۔ ’چاروں قتل ہونے والے اس کار میں سوار تھے جبکہ میں اپنے ایک اور ساتھی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ٹارکٹ کرنے والوں نے ہماری نقل و حرکت پر نظر رکھی ہوئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمیں کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ یوتھ آف وزیرستان تو مکمل طور پر غیر سیاسی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا کسی بھی گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تنظیم صرف اور صرف وزیرستان اور وزیرستان کے امن اور حوشحالی بات کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم لوگ اس میں اپنے ذاتی سیاسی نظریات کو اس میں نہیں لاتے۔‘

عابد آفریدی قبائلی جرگہ پاکستان کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انجینیئر اسد، وقار احمد، سنید اور عماد کا بچپن اور نوجوانی سب کے سامنے ہیں۔ ’یہ وہ درخشناں ستارے ہیں جنھوں نے اپنے بچپن اور نوجوانی کیمپوں میں گزاری مگر کبھی بھی انتہا پسندی کی طرف نہیں گئے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ وزیرستان اور قبائلی علاقے میں امن اور حوشحالی ان کی زندگی کا مشن تھا۔‘

عابد آفریدی کہتے ہیں کہ اسد کا شمار یوتھ آف وزیرستان کے بانیوں میں سے ہوتا ہے۔ ’انھوں نے کیمپ میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس میں ان کے ساتھ قتل ہونے والے باقی تینوں بھی شامل تھے۔ یہ متضاد سیاسی نظریات رکھتے تھے مگر وزیرستان میں امن، تعلیم اور حوشحالی پر یک زبان تھے۔ یہ لوگ بڑی سے بڑی قربانی دیتے تھے۔‘

عابد آفریدی کہتے ہیں کہ اس راہ میں بڑی مشکلات آئیں تھیں مگر یہ لوگ اپنے موقف سے ایک اِنچ بھی پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی اپنے موقف سے دستبردار ہوئے۔ ’یہ تمام جائز جمہوری، آئینی اور قانونی راستے اختیار کرتے تھے۔ ان کی جدوجہد سے مجبور ہو کر ایک مرتبہ ایک اعلیٰ ترین عہدیدار نے ہم لوگوں کو ملاقات کے لیے بلایا تھا۔‘

’ہم نے طے کیا کہ انجینیئر اسد اور سنید ہم سب کی نمائندگی کریں گے۔ جب ہماری بات چیت شروع ہوئی تو اسد اور سنید پوری طرح غصے میں بھرے بیٹھے تھے اور انھوں نے کھری کھری باتیں کرنا شروع کردیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ شخصیت ہنسنے اور مسکرانے لگی تو ان دونوں نے کہا کہ ’آپ تو ہماری باتوں کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہے ہیں۔‘ جس پر اس شخصیت نے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنا سارا غصہ نکال لیں‘ جس پر ان دونوں نے بھی اپنا غصہ کم کردیا۔

’یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی زندگی میں اپنے بے گناہ خانداں والوں اور اپنے دوستوں کی لاشیں اٹھائیں۔ لاشیں اٹھانے کے بعد بھی ان کے جذبے کم نہیں ہوئے ہیں بلکہ مزید بڑھے۔‘

عابد آفریدی کہتے ہیں کہ نور سلام اور مصور داوڑ یوتھ آف وزیرستان کے صدر رہے ہیں۔ اسد اور ان کے ساتھیوں نے ان کے ساتھ مل کر تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ پہلے نور سلام اور پھر مصور داوڑ اور اب اسد اور ان کے ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے دیکھا تھا جب نور سلام اور مصور داوڑ مارے گئے تو اس وقت اسد اور ان کے ساتھی بہت جذباتی اور غصے میں تھے۔ یہ نوجوان لوگ تھے جنھوں نے بہت مشکلات دیکھی تھیں۔ کسی بھی غلط راستے کی طرف چل سکتے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا، ان کو اپنی منزل اور سمت کا پتا تھا۔‘

اپنے دونوں ساتھیوں کی ٹارکٹ کلنگ پر بھی انھوں نے عہد کیا کہ وہ نور سلام اور مصور داوڑ کے راستے پر چلتے رہیں گے۔ اس وقت تک جب تک انھیں بھی قتل نہ کر دیا جائے یا وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ جائیں۔

اسرار کہتے ہیں کہ ’قبائلی ماحول میں رہنے کے باوجود اسد اللہ، وقار، سنید اور عماد سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں ہوئی۔

’یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ قبائلی نوجوان تھے جو قبائل کی قسمت اور تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اگر کوئی دشمنی تھی تو وہ بدامنی سے تھی۔ جس کے خلاف وہ لڑ رہے تھے۔‘

’ہمارے پاس اسد کے جنازے اور اب دعا کے لیے کئی یتیم طالب علم آتے ہیں۔ وہ کہتے کچھ نہیں ہیں بس چپ بیٹھے رہتے ہیں۔

’ہم ان کو دیکھتے ہی سممجھ جاتے ہیں کہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اب ان کی تعلیم کا کیا ہوگا؟ مگر ہمیں امید ہے کہ ان بچوں کی تعلیم بھی جاری رہے گی اور قبائل کی قسمت بھی بدلے گئی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں