پاکستان نے ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم ساجد میر کی گرفتاری کو دو ماہ تک ‘خفیہ’ کیوں رکھا؟

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی حکام کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ‘گرے لسٹ’ سے نکلنے کے لیے ایکشن پلان پر عمل درآمد کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں جس چیز نے ان کے کیس کو مضبوط کیا وہ مقدمات میں مجرم قرار دینا اور کالعدم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کے سرکردہ دہشت گرد ساجد مجید میر کو سنائی گئی سزا تھی۔

تفصیلات کے مطابق ساجد مجید میر کو پاکستان میں 15 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، ساجد میر کو یہ سزا دہشت گردی کی مالی معاونت کے ایک اہم مقدمے میں سنائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ پاکستان کا ایک بڑا جھوٹ بھی سب کے سامنے آگیا ہے۔ پاکستان ماضی میں بھی یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ ممبئی حملے کا اہم سازشی ساجد میر پاکستان میں نہیں ہے اور ممکنہ اس کی موت ہوچکی ہے، لیکن اب لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے اسے سزا سنائے جانے سے پاکستان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا ہے۔

26 نومبر 2008 کو ممبئی حملے میں 26 غیر ملکیوں سمیت 166افراد مارے گئے تھے۔ ساجد میر کی سزا کے بارے میں معلومات، لاہور کے ایک سینئر وکیل نے دی ہے۔ یہ وکیل کالعدم تنظیم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ کے اہم رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی سے متعلق اہم کیسوں سے منسلک ہیں۔ انہوں نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ اس مہینے کی شروعات میں لاہور میں اینٹی ٹیررازم کورٹ نے لشکر طیبہ سے جڑے ساجد مجید میر کو 15 سال کی جیل کی سزا سنائی ہے۔ اس پر 4 لاکھ روپے سے زیادہ کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ وکیل نے مزید بتایا کہ قریب 45 سال کے ساجد میر کو اپریل میں گرفتار کیا گیا تھا، تب سے وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم ساجد میر 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد سے لاپتہ تھا۔

ذرائع کے مطابق امریکا کے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن ( ایف بی آئی) نے ساجد مجید میر کو مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا، جس کے سر پر ایف بی آئی نے 5 ملین ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔

ملزم ساجد میر کو ممبئی حملوں کا مرکزی منصوبہ ساز کہا جاتا رہا ہے، اس کے بارے میں ایک عرصے تک وفات پا جانے کی افواہیں بھی پھیلائی گئیں۔

ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر 2008 کے ممبئی حملوں کی ہدایت دینے والے 44 سالہ ساجد میر کو رواں ماہ کے ابتدائی ہفتے میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے ساڑھے 15 سال قید کی سزا سنائی تھی اور ان پر 4 لاکھ 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا، ذرائع کے مطابق وہ اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔

غیر ملکی صحافی رضا الحسن لشکر نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ایکشن پلان پر عمل درآمد کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں جس چیز نے ان کے کیس کو مضبوط کیا وہ مقدمات میں مجرم قرار دینا اور کالعدم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کے سرکردہ دہشت گرد ساجد مجید میر کو سنائی گئی سزا تھی۔

یہ سب کچھ اتنی خاموشی سے ہوا کہ اتنے بڑے مقدمے میں عدالتی فیصلے کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوئی، سوائے ایک اخبار میں چھپنے والی انتہائی مختصر رپورٹ کے اور وہ بھی توجہ مبذول نہ کرسکی ان کی گرفتاری جو بظاہر اپریل کے آخر میں ہوئی تھی، کو بھی میڈیا کی نظروں سے دور رکھا گیا تھا۔

سی ٹی ڈی نے ساجد میر کی سزا پر چپ سادھ لی

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پنجاب اکثر میڈیا کو ایسے کیسز کی معلومات فراہم کرتا رہتا ہے، لیکن اس نے ساجد میر کی سزا کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ میڈیا کو اس کی سزا اور عدالتی کارروائی کا علم تک نہیں تھا کیونکہ یہ جیل کے اندر ایک بند کمرے میں کیا گیا تھا، جہاں میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکام نے ماضی میں ان کی موت کا دعویٰ کیا تھا لیکن مغربی ممالک اس پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ان کی موت کے ثبوت مانگتے تھے۔

یہ مسئلہ گزشتہ سال کے آخر میں ایکشن پلان پر پاکستان کی پیشر فت کے ایف اے ٹی ایف کے جائزے میں ایک اہم نکتہ بن گیا، یہیں سے ساجد میر کے معاملے میں بالآخر معاملات آگے بڑھنے لگے اور ان کی ’گرفتاری‘ تک پہنچ گئے۔

انہیں مجرم قرار دینا اور سزا سنانا اس لیے بڑی کامیابیاں تھیں کہ اسے پاکستانی حکام نے ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کے دوران ایکشن پلان پر دی گئی اپنی پیش رفت رپورٹ میں دکھایا۔

اس نے واقعی ایف اے ٹی ایف کے ارکان کو یہ بآور کرانے میں مدد دی کہ پاکستان نے تمام مطلوبہ کام مکمل کر لیے ہیں۔

کمزور پراسیکیوشن اور دہشت گردوں کو سزا سنانے کی کم شرح وہ بڑی خامیاں تھیں جنہوں نے پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے میں رکاوٹ ڈالی۔

ایف اے ٹی ایف کے جون 2022 کے پلانری اجلاس کے نتائج کے مطابق پاکستان نے منی لانڈرنگ کے مقدمات کی تحقیقات اور پراسیکیوشن میں ’بہتری کا رجحان‘ ظاہر کیا، اس کے علاوہ یہ ظاہر کیا کہ اقوام متحدہ کے نامزد دہشت گرد گروپوں کے سینئر رہنماؤں اور کمانڈروں کے خلاف دہشت گردی کی مالی معاونت کے مقدمات کی سنجیدگی سے پیروی کی جا رہی ہے۔

چنانچہ نگراں ادارے نے بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان نے 34 آئٹمز پر مشتمل دو ایکشن پلانز کو ’کافی حد تک مکمل‘ کر لیا ہے اور انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام کے نفاذ کی تصدیق کے لیے ایک تکنیکی ٹیم کو سائٹ کے دورے کا حکم دیا۔

ساجد میر کون ہے؟

لاہور میں پیدا ہونے والے ساجد میر زیادہ تر ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی اور اس کی انجام دہی میں اپنے مبینہ کردار کے لیے معروف ہیں، اس حملے میں 26 غیر ملکیوں سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے اور دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔

ساجد میر نے مبینہ طور پر ممبئی میں محاصرے کے دوران حملہ آوروں کو لاہور سے ہدایات دی تھیں۔

دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ساجد میر نے ممبئی میں ریکی کرنے اور اہداف کی تفصیلات اکٹھی کرنے میں 2 سال گزارے، انہوں نے مبینہ طور پر یہ حملہ امریکی دہشت گرد کولیمن ہیڈلے کی مدد سے کیا جو بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں امریکا میں 35 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے ساتھ ساجد میر کی وابستگی 1994 سے شروع ہوئی، جب وہ محض 16 سال کے تھے جس کے بعد وہ دہشت گرد تنظیم میں ترقی پاتے گئے اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ونگ سے منسلک ہوگئے۔

رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ وہ لشکر طیبہ کے بین الاقوامی آپریشنز کے نائب سربراہ رہے لیکن دوسروں کا خیال ہے کہ اس نے کسی وقت اس یونٹ کی قیادت بھی کی تھی، کہا جاتا ہے کہ ساجد میر کو ذکی الرحمٰن لکھوی تک براہ راست رسائی حاصل تھی جو دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کا سربراہ تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کارروائیوں کے دوران اس کے القاعدہ سے بھی رابطے رہے۔

انہوں نے 2005 میں خفیہ طور پر بھارت کا دورہ کیا تھا، جہاں وہ کرکٹ کے پرستار کے طور پر دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ دیکھنے گئے تھے، اس موقع پر وہ تقریباً 15 روز تک بھارت میں رہے۔

ساجد میر کا نام بین الاقوامی دہشت گردی کے منظر نامے پر 2002 کے اوائل میں نمایاں ہونا شروع ہوا، جب انہوں نے ورجینیا میں مقیم اپنے ساتھیوں کی مدد سے امریکا سے فوجی سازوسامان کی بڑی خریداری کی کوشش کی۔

تاہم یہ منصوبہ اس وقت ختم ہو گیا جب ایف بی آئی نے 11 افراد کو گرفتار کیا جسے ‘ورجینیا پینٹ بال جہادی’ کیس کے نام سے جانا جانے لگا، ان میں سے 10 افراد کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔

بعد میں ساجد میر نے آسٹریلیا کا رخ کیا اور 2003 میں ایک فرانسیسی شہری، ویلی بریگٹ اور ایک آسٹریلوی فہیم خالد لودھی کی مدد سے افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کی موجودگی پر آسٹریلیا میں حملوں کی منصوبہ بندی کی۔

خالد لودھی کو جون 2006 میں آسٹریلیا کی ایک عدالت نے دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کا مجرم قرار دیتے ہوئے 20 سال قید کی سزا سنائی تھی جب کہ ویلی بریگٹ جسے 2003 میں فرانس ڈی پورٹ کیا گیا تھا، کو فرانس کی ایک عدالت نے 9 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اس کے بعد ساجد میر نے ممبئی پروجیکٹ پر کام شروع کیا، بعد میں 2009 میں انہوں نے ہیڈلی کے ساتھ مل کر ڈنمارک کے کوپن ہیگن میں ایک اخبار کے دفتر پر حملہ کرنے کا منصوبہ ترک کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں