تحریک طالبان پاکستان کا اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی بم دھماکے میں 2 کمانڈروں سمیت ہلاک

اسلام آباد (ش ح ط) کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اہم کمانڈر عبدالولی مہمند المعروف عمر خالد خراسانی افغانستان میں ایک بم دھماکے میں اپنے تین ساتھیوں کمانڈروں سمیت ہلاک ہوگئے ہیں۔

معتبر ذرائع کے مطابق افغان صوبے پکتیکا میں بارودی سرنگ کا دھماکا ہوا، جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا اہم ترین کمانڈر عبدالولی عرف عمر خالد خراسانی ہلاک ہوگیا۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1556525026136006656?t=9Kr0bBYJz8WCuZL48lbXCg&s=19

ذرائع کے مطابق دھماکا ضلع برمل کے علاقے سراکی کلی میں ہوا، اور اس دھماکے میں عمر خالد خراسانی کا داماد اور دو قریبی ساتھی کمانڈر مفتی حسن اور کمانڈر حافظ دولت بھی مارے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق دوسرا واقعہ کنڑ میں ہوا ہے جہاں بارودی سرنگ دھماکے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا اہم کمانڈر عبدالرشید عرف مولانا عقابی باجوڑی ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی ریڈیو مشال کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مذکورہ افراد ضلع برمل کے علاقے سراکی کلی میں گاڑی میں سوار تھے کہ سات اگست کی شام ان کی کار سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ ٹی ٹی پی کمانڈر ‘مشاورت ‘کے لیے برمل جا رہے تھے۔

واضح رہے کہ عمر خالد کا شمار کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی کے بعد دوسرے نمبر پر ہوتا تھا۔ ان کی ہلاکت کی خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستانی حکام جنگجو گروپ کی قیادت سے امن معاہدے کے لیے بات چیت کے لیے رابطے میں ہیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستانی فوج کے درمیان گزشتہ دو ماہ سے جنگ بندی جاری ہے۔ تاہم کالعدم جماعت کے تین اہم کمانڈروں کی ہلاکت سے حکومتِ پاکستان کی ان کاوشوں کو دھچکا لگ سکتا ہے جس کا مقصد فی الوقت جون کے اوائل میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے میں توسیع اور مستقل مصالحت ہے۔

خالد خراسانی سے قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے متعدد سرکردہ کمانڈر افغانستان میں تشدد اور بم دھماکوں کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کمانڈروں میں ملا فضل اللہ، اسلم فاروقی اور منگل باغ نمایاں تھے۔

پشاور اور چارسدہ سے ملحقہ قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے عبدالولی مہمند المعروف عمر خالد خراسانی کا شمار کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے حال ہی میں مفتی نور ولی محسود کی قیادت میں دس رکنی پاکستانی وفد سے کابل میں ہونے والے امن مذاکرات میں بھی حصہ لیا تھا۔

ریڈیو مشال کے مطابق ہلاک ہونے والے جنگجوؤں میں شامل مفتی حسن ٹی ٹی پی کے ان تقریباً ایک درجن کمانڈروں میں شامل تھے جنہوں نے دہشت گرد گروپ داعش کے مقتول رہنما ابوبکر البغدادی سے بیعت کی تھی جب کہ حافظ دولت خان کو عمر خالد خراسانی کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے بعض حلقے مفتی حسن کو چند سال قبل ٹی ٹی پی میں لڑائی بھڑکانے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی کے ذرائع نے عمر خالد خراسانی اور 2 کمانڈرز کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

واضح رہے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے محمد عمر خالد خراسانی کے سر پر ایک کروڑ روپے کا انعام رکھا گیا تھا۔

عمر خالد خراسانی کا اصلی نام عبدالولی تھا اور ان کے سر پر امریکی حکومت نے 30 لاکھ ڈالرز انعام کا بھی اعلان کر رکھا تھا۔

2014 میں ٹی ٹی پی سے علیحدگی کے بعد عمر خالد خراسانی نے جماعت الاحرار بنائی تھی۔

ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کرنے بعد ان کے گروہ جماعت الاحرار نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی جس میں 2014 میں واہگہ بارڈر لاہور میں خودکش حملے، 2015 میں لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو خودکش دھماکے، لاہور ہی میں 2016 میں ایسٹر کے موقع پر اقبال پارک میں خودکش حملہ اور 2017 میں مال روڈ پر احتجاج پر خودکش دھماکے سمیت دیگر حملے شامل ہیں۔

2020 میں عمر خالد خراسانی دوبارہ ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ عمر خالد خراسانی کا شمار ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈرز میں کیا جاتا تھا اور تنظیمی دائروں میں انہیں قابل اعتماد ملٹری کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا۔

عمر خالد خراسانی کا ’القاعدہ‘ اور اس کے سربراہ ایمن الظواہری سے بھی قریبی تعلق تھا جو چند روز قبل ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

صحافی سے دہشت گرد

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بانی ارکان میں سے ایک عمر خالد خراسانی عرف عبد الولی، مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سابق صحافی تھے۔

تنظیمی دائروں میں انہیں قابل اعتماد ملٹری کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا۔

انہیں مختصر عرصے کے لیے تنظیم کے خیبر ایجنسی چیپٹر کا ایڈیشنل چارج بھی دیا گیا، جہاں انہوں نے لشکرز (ملشیاز) کے خلاف خونی مہم کا منصوبہ بنایا جنہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔

تاہم پھر انہوں نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی الگ تنظیم ’جماعت الاحرار‘ بنالی۔

وہ پہلے طالبان کے ایک دھڑے ’احرار الہند‘ کے سربراہ تھے جس نے 2014 میں حکومت اور طالبان کے درمیان سیز فائر کے عرصے کے دوران متعدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

ان حملوں میں اسلام آباد کورٹ کمپلیکس کا وہ حملہ بھی شامل تھا جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمر خالد خراسانی کا عالمی دہشت گرد تنظیم ’القاعدہ‘ اور اس کے سربراہ ایمن الظواہری سے بھی قریبی تعلق تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں