سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر مقدمہ درج

سوات + اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) خیبر پختونخوا پولیس نے ضلع سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں ‘پرامن احتجاج’ کے کچھ شرکا کے خلاف مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے لگانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر زاہد نواز مروت کے مطابق ایف آئی آر اس لیے درج کی گئی کیونکہ کچھ شرکا نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے لگائے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔

ڈی پی او نے دعویٰ کیا کہ ان شرکا نے ریاستی اداروں کو بھی گالی دی اور جو لوگ ریاستی اداروں کو بدنام کرتے ہیں ان کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔

ڈی پی او نے ایف آئی آر کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں اور کہا کہ وہ علاقے میں ’عسکریت پسندوں‘ کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن میں حصہ لینے کے لیے میدان عمل میں تھے۔

قبل ازیں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے سوات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے انتشار سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

تاہم انہوں نے کہا تھا کہ سوات اور دیر کے درمیان چند پہاڑی چوٹیوں پر آبادی سے کافی دور چند مسلح افراد کو دیکھا گیا ہے، بظاہر یہ افراد اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے افغانستان سے چھپ کر آئے تھے لیکن پہاڑوں میں ان کی محدود تعداد میں موجودگی اور نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

ایف آئی آر میں نامزد افراد کے اہل خانہ کے مطابق مقدمہ ایم پی او کی دفعہ 16، اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 504، 506، 149اے، 124اے، 124بی وغیرہ کے تحت درج کیا گیا ہے۔

دریں اثنا سول سوسائٹی کے ارکان نے پولیس کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’غیر منصفانہ اور غیر قانونی اقدام‘ قرار دیا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ 8 اگست کو سوات اور دیر کے اضلاع کی سرحد سے متصل تحصیل مٹہ کے پہاڑوں میں عسکریت پسندوں کی حالیہ موجودگی کے خلاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی۔

سوات قومی جرگہ کے ترجمان خورشید کاکا نے کہا کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر نامعلوم افراد کی طرف سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں ایک شخص کو طالبان عسکریت پسند ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور وہ مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی پیر سید اور دو سیکورٹی افسران کا انٹرویو کر رہا ہے۔

ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس میں اعتراف کیا گیا کہ مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی تحصیل مٹہ کے کنالہ پہاڑوں میں کچھ عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس پیش رفت کے ردعمل میں سوات کے ہزاروں لوگوں نے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مذمت میں ایک ریلی نکالی۔

جرگہ ترجمان کا کہنا تھا کہ سوات کے لوگ برسوں کی عسکریت پسندی سے بری طرح متاثر رہے ہیں، کسی کو بھی محنت سے حاصل ہونے والے امن کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پولیس نے ایک طالبعلم غیرت یوسفزئی اور ریلی کے کچھ دیگر شرکا کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، اور الزام لگایا کہ پولیس مقدمے میں نامزد افراد کے اہل خانہ کو ایف آئی آر نہیں دکھا رہی۔

وکلا نے بھی پولیس کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا، کریم شلمانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو اپنی رائے کے اظہار، جلسے اور جلوس نکالنے اور بولنے اور لکھنے کے حقوق کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ عسکریت پسندوں کے دوبارہ منظر عام پر آنے پر مشتعل تھے اور انہوں نے پرامن احتجاج میں اپنے غصے کا اظہار کیا۔

سول سوسائٹی کے ارکان نے خبردار کیا کہ پرامن مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطلب لوگوں کو پولیس کے خلاف اکسانا ہو گا۔

سوات بھر میں صورتحال معمول پر ہے، لوگوں نے بتایا کہ تحصیل مٹہ کے پہاڑوں میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز موجود ہیں لیکن انہیں گولیوں کی آواز سنائی نہیں دی۔

سوات سے ملحقہ اضلاع بونیر اور دیر میں بھی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان نے تحریکِ التوا اسمبلی میں پیش کی ہے۔

اتوار کو سابق وفاقی وزیر اور صوبے کی حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے رہنما مراد سعید نےکسی ادارے کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ بعض حلقے ایک بار پھر سوات میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں جس کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے حکومت سے سوات میں عسکریت پسندوں کے منظرِ عام پر آنے اور سرگرم ہونے کے واقعے کی فوری تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں