‏کابل کی مسجد صدیقیہ میں خودکش حملہ، امام سمیت 21 افراد ہلاک، 35 زخمی

اسلام آباد (ش ح ط/نیوز ایجنسیاں) افغان دارالحکومت کابل کی مسجد پر خودکش حملے اور فائرنگ میں 21 افراد ہلاک اور 35 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں صدیقیہ مسجد پر دہشت گرد نے حملہ کردیا، حملہ آور نے فائرنگ کے بعد خود کو مسجد کے اندر دھماکے سے اڑا لیا۔

دھماکا شہر کے خیرخانہ کے علاقے کے صدیقیہ مسجد میں ہؤا ہے۔ ڈیلی اردو کے مطابق سلفی مکتبہ فکر کے نامور مذہبی رہنما و مبلغ مولوی امیر محمد کابلی دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

کابل کے خیر خانہ محلے کے رہنے والے ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا ہے کہ صدیقیہ مسجد میں دھماکہ ایک خودکش بمبار نے کیا تھا۔ عینی شاہد کے مطابق، مقتول ممتاز عالم دین کا نام ملا امیر محمد کابلی تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 30 سے زائد دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم ایمرجنسی کے ہسپتال کا کہنا ہے کہ اب تک اُن کے پاس 27 متاثرہ افراد کو لایا گیا، جن میں پانچ بچے بھی شامل ہیں۔

اسی ہسپتال نے خبر رساں ادارے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بذریعہ ای میل مطلع کیا کہ ہلاکتوں کی تعداد 21 ہے۔

کابل پولیس چیف کے ترجمان خالد زدران نے شمالی کابل میں ایک مسجد کے اندر دھماکے کی تصدیق کی ہے لیکن ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی دھماکے کی مذمت کی ہےاور اس عزم کا اظہار کیا ہےکہ “ان جرائم کے مرتکب افراد کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور انہیں سزا دی جائے گی۔”

گذشتہ ہفتے کابل کے ایک مدرسے میں طالبان سے منسلک عالم رحیم اللہ حقانی کو بھی ایک خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری بھی دولتِ اسلامیہ نے قبول کی تھی۔

اسلامک اسٹیٹ (داعش) سے منسلک مقامی گروہوں نے گزشتہ برس اگست میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے، طالبان اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

طالبان کے باغی رہنما کو قتل کر دیا گیا 

ادھر ایک اور علیحدہ واقعے میں، طالبان نے بدھ کو تصدیق کی ہےکہ انہوں نے مغربی صوبہ ہرات میں مہدی مجاہد کو اس وقت پکڑ کر ہلاک کر دیا جب وہ سرحد عبور کر کے ایران جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

مہدی مجاہد شمالی صوبہ سر پل کے ضلع بلخاب میں طالبان کے سابق کمانڈر تھے، اوروہ طالبان میں اقلیتی شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے واحد رکن تھے۔

گزشتہ برس طالبان رہنماؤں کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کی مخالفت کے بعد مہدی مجاہد، طالبان کے خلاف ہو گئے تھے۔

وزارت دفاع کے مطابق مولوی مہدی کو ایران سے متصل سرحدی علاقے میں طالبان نے اس وقت قتل کیا جب وہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

کچھ عرصہ قبل مولوی مہدی کو کمانڈر تعینات کیا گیا تھا تو اسے اقلیتوں کے حوالے سے طالبان کی ذہنیت تبدیل ہونے کا اشارہ سمجھا جا رہا تھا۔

طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد مہدی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے اور طالبان نے حکومت بنانے کے بعد مہدی کو وسطی صوبے میں خفیہ ایجنسی کا سربراہ تعینات کیا تھا۔

وزارت دفاع نے بدھ کو جاری بیان میں مہدی کو شمالی صوبے سرے پل کے ’باغیوں کا رہنما‘ قرار دیا ہے۔

طالبان ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ مہدی طالبان سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نے بغاوت کی تھی۔

وزارت دفاع کے مطابق انہیں افغان صوبے ہرات میں قتل کیا گیا ہے، جو ایران کی سرحد سے متصل ہے۔

روئٹرز کو مہدی کے کسی ذرائع تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں