اقوام متحدہ کے ماہرین کا روسی افواج کے قبضے میں زاپوریژیا جوہری پلانٹ کا جائزہ

جینوا (ڈیلی اردو/بی بی سی) اقوام متحدہ کے جوہری ماہرین نے یوکرین میں روس کے زیر قبضہ زاپوریژیا جوہری پلانٹ کا پہلا معائنہ کیا ہے اور اب وہ وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ پلانٹ اور پلانٹ کی ظاہری سالمیت کی کئی بار خلاف ورزی کی گئی۔

گولہ باری کی وجہ سے تفتیشی ٹیم کا سفر خاصا پُرخطر رہا اور بہت تاخیر سے روسی فوجیوں کے ہمراہ پلانٹ تک پہنچے۔

روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر اس مشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔

زاپوریژیا، جنوبی یوکرین میں یورپ کا سب سے بڑا ایٹمی پلانٹ ہے۔ رواں برس فروری میں یوکرین پر حملہ کرنے کے فوراً بعد روس نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔

یوکرینی عملہ، جو پلانٹ کو چلا رہا ہے، کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں نے اسے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کیا ہے اور یہ کہ کارکنان کو بندوق کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔

گروسی جو ایک بار یوکرین کے زیرِ قبضہ علاقے میں واپس چلے گئے تھے، کہتے ہیں ’ہم اب کہیں نہیں جا رہے ہیں۔ اب پلانٹ پر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے لوگ آ گئے ہیں اور وہ یہیں رہیں گے۔‘

لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کتنے افراد ہیں اور وہ کتنے عرصے تک قیام کریں گے۔

روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ لگ بھگ آٹھ سے 12 انسپکٹر وہاں رہیں گے، جبکہ یوکرین کی سرکاری نیوکلیئر کمپنی اینرگواٹم کے مطابق پانچ انسپکٹر پلانٹ پر رہیں گے۔

یہ تفتیشی ٹیم پلانٹ کی حالت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ وہاں روسی کنٹرول میں رہنے والے یوکرینی کارکنوں سے بات چیت کی بھی امید رکھتی ہے۔

گروسی کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیم کا یہ معائنہ پلانٹ کے قریب ہونے والی لڑائیوں سے رُکنے والا نہیں تھا۔

انھوں نے کہا ’دو تین بار ایسے لمحات بھی آئے تھے کہ جب بہت زیادہ آگ بھڑک اُٹھی تھی، بھاری مشین گن، آرٹلری مارٹر وغیرہ اور ہم سب کے لیے یہ بہت بریشان کن صورتحال تھی۔‘

آئی اے ای اے کے سابق چیف انسپکٹر اولی ہینونن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اگر یوکرینی عملے کے انٹرویوز ہوتے ہیں، تو ان کارکنوں کے اپنے اور ان کے خاندانوں کی حفاظت کو لاحق خطرات کےباعث وہ کھل کر نہیں بول پائیں گے اور ان کے زیادہ شفاف ہونے کا امکان نہیں ہے۔

اپنے رات کے خطاب کے دوران یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ تفتیش کار ’معقول نتیجہ اخذ کریں گے‘ لیکن انھوں نے وفد میں بین الاقوامی صحافیوں کی عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس واضح ثبوت ہیں کہ روس نے مشن کو دھوکہ دینے کے لیے بہت سی مذموم حرکتیں کیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’روسی اہلکاروں نے لوگوں کو آئی اے ای اے کے نمائندوں سے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا ہے اور اس کے علاوہ انھوں نے یوکرینی اہکاروں سے زبردستی کچھ کاغذات حوالے کرنے اور دیگر پر دستخط کرنے کو بھی کہا ہے۔‘

اس کے علاوہ زیلنسکی کے چیف آف سٹاف نے روس پر الزام لگایا کہ وہ اس پلانٹ سے قریبی شہر اینر ہودر، جو ماسکو کے زیر کنٹرول ہے، پر گولہ باری کر کے مشن کو ’تباہ‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اینڈری یرماک نے روس پر ’دہشت گرد ریاست‘ کی طرح کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ٹیلی گرام پر لکھا کہ ’مجرموں کو روکنا چاہیے۔‘

روس نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کی صبح دریا عبور کرکے پلانٹ پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والے 60 یوکرینی ’تخریب کاروں‘ کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

جیسے جیسے پلانٹ میں کسی حادثے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، یورپی یونین یوکرین کو تابکاری سے بچانے والی 50 لاکھ سے زیادہ گولیاں بھجوا رہی ہے۔

اگرچہ اس علاقے میں ہونے والی حالیہ لڑائی نے پلانٹ کو کچھ نقصان پہنچایا ہے، تاہم اب تک اس علاقے میں تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں