اسرائیل کا نیا قانون: فلسطینی سے محبت ہو جائے تو غیر ملکی اسرائیل کو مطلع کرنے کے پابند ہونیگے

تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) نئے قوانین کے تحت اگر مقبوضہ غرب اردن (ویسٹ بینک) میں ایک غیر ملکی کو کسی فلسطینی سے محبت ہوجائے تو اسے اسرائیلی وزارت دفاع کو مطلع کرنا ہوگا۔

اگر ان کے بیچ شادی ہوجائے تو انھیں 27 ماہ بعد ماحول کو خراب ہونے سے روکنے کے لیے کم از کم ایک سال کے لیے وہاں سے جانا ہوگا۔

یہ وہ سخت قوانین ہیں جو اب مقبوضہ غرب اردن میں رہائش پذیر یا سیاحت کے لیے آنے والے غیر ملکی افراد پر لاگو ہوں گے۔

اس کے ردعمل میں فلسطینی اور اسرائیلی فلاحی تنظیموں نے اسرائیل پر ’سختیوں کو نئی بلندی پر لے جانے‘ کا الزام لگایا ہے۔

ان قوانین کا اطلاق پیر سے ہو رہا ہے۔

تفصیلی دستاویزات میں درج کردہ ان قوانین میں غیر ملکیوں سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی شناختی کارڈ رکھنے والے کسی شخص سے تعلق جوڑنے کے 30 روز کے اندر حکام کو مطلع کریں۔

فلسطینی یونیورسٹیوں پر عائد نئی پابندیوں میں 150 سٹوڈنٹ ویزے اور 100 غیر ملکی لیکچررز کا کوٹا شامل ہے۔ تاہم اسرائیلی شہریوں کے لیے ایسی کوئی حدود نہیں۔

کاروباری افراد اور امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس سے وہ بُری طرح متاثر ہوں گے۔ نئے قوانین میں ویزے کی مد اور توسیع پر سختیاں کی گئی ہیں۔ اس کے تحت ویسٹ بینک میں لوگ کام کے لیے یا بطور رضاکار چند ماہ سے زیادہ نہیں رہ سکیں گے۔

اسرائیل کی غیر سکاری تنظیم ہاموکڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جسیکا مونٹل کا کہنا ہے کہ ’یہ فلسطینی معاشرے کی علاقائی انجینیئرنگ اور اسے باہر کی دنیا سے کاٹنے کا سوال ہے۔‘ ان کی تنظیم نے ان قوانین کے خلاف اسرائیلی ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی ہے۔

’وہ لوگوں کی جانب سے فلسطینی اداروں میں کام کرنا، رضاکارانہ سرگرمیوں میں شرکت، سرمایہ کاری، ٹیچنگ اور پڑھنے کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔‘

’ایک ریاست، دو نظام‘

اسرائیل نے 1967 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران اردن سے ویسٹ بینک پر قبضہ کیا تھا۔ آج مقبوضہ فلسطینی خطے میں انتظام سنبھالنے کی ذمہ داری اسرائیلی وزارت دفاع کے ایک یونٹ سی او جی اے ٹی کے پاس ہے۔

اس یونٹ کے آرڈر کے نفاذ میں تاخیر کی گئی ہے۔ اس کا عنوان یہودیہ اور سامرہ میں غیر ملکیوں کا داخلہ اور رہائش ہے۔ اسرائیل اب بھی ویسٹ بینک کے علاقے کے لیے بائبل میں دیے گئے قدیم نام استعمال کرتا ہے۔

دستاویزات کے مطابق جو غیر ملکی ان علاقوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کی درخواستوں کے طریقہ کار اور نگرانی کے درجے کو وضع کیا گیا ہے۔

اس میں 1990 کی دہائی کے عبوری امن معاہدوں کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق ویسٹ بینک اور غزہ میں اسرائیلی شہروں کے فلسطینی شریک حیات اور بچوں کی رہائش کے لیے اسرائیل کی اجازت درکار ہوگی اور وہی کسی مہمان کو داخلے کی اجازت دے گا۔

تاہم نئے قوانین ان لوگوں پر نافذ نہیں ہوں گے جو اسرائیل، ویسٹ بینک کے فلسطینی علاقوں یا یہودی بستیوں میں جانا چاہتے ہیں۔ ان کیسز میں داخلی امور اسرائیلی امیگریشن حکام کے پاس ہوتے ہیں۔

فلسطینیوں کے نمائندہ ادارے پی ایل لو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے متعاصب قوانین سے ’ایک ریاست میں دو الگ نظام‘ واضح ہوتے ہیں۔

بی بی سی نے اسرائیلی یونٹ سے ردعمل جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر علاقے میں سفری پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

قانونی چیلنج

ویسٹ بینک میں فلسطینیوں کے غیر ملکی شریک حیات کو مستقل رہائش کی اجازت دینے پر اسرائیلی پابندی سے ہزاروں لوگوں کو غیر یقینی قانونی چیلنج کا سامنا ہے۔

رائٹ ٹو اینٹر نامی سماجی مہم کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی حکام کے متعاصب، ظالمانہ اور یکطرفہ اقدامات‘ نے ہر غیر ملکی شریک حیات کے لیے ’انسانی حقوق کی فراہمی میں مشکلات پیدا کی ہیں۔‘ اس کی وجہ سے انھیں ویسٹ بینک میں اپنے خاندانوں سے زبردستی الگ کیا گیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ نئے اقدامات سے موجودہ پابندیوں کو مزید سنگین کیا گیا ہے اور ’خاندانوں کو مجبور کیا جائے گا کہ ایک ساتھ رہنے کے لیے بیرون ملک منتقل ہوجائیں۔‘

نئے قوانین میں رشتہ داروں سے ملنے کے کچھ عوامل شامل نہیں، جیسے بہن بھائی، خاندان کے معمر افراد یا پوتوں اور نواسوں سے ملاقات۔

یورپی کمیشن نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی یونیورسٹی میں غیر ملکی طلبہ اور اساتذہ پر پابندیوں پر شید تشویش ظاہر کی ہے۔

ایرازمس پلس پروگرام کے تحت یورپ میں اعلیٰ تعلیم کے 366 طلبہ اور عملہ 2020 میں ویسٹ بینک گیا تھا۔ اسی دوران 1671 یورپی اسرائیلی تعلیمی اداروں میں تھے۔

یورپی کمشنر ماریا گیبرئل نے کہا ے کہ ’اسرائیل خود ایرازمس پلس سے فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ کمیشن سمجھتا ہے کہ اسے اس میں سہولت دینی چاہیے اور فلسطینی یونیورسٹیوں میں طلبہ کو جانے سے نہیں روکنا چاہیے۔‘

کاروباری سرگرمیوں کو خطرہ درپیش

ہاموکڈ کے علاوہ ہائی کورٹ سے 19 دیگر افراد نے رجوع کیا ہے۔

ویسٹ بینک میں فلسطینی دوا ساز کمپنی کے سربراہ بسم خوری نے کہا ہے کہ ان اقدامات کی وجہ سے ان کی بیرون ملک سے ملازمین، سرمایہ کار، سپلائر اور کوالٹی کنٹرول ماہرین لانے کی صلاحیت بہت محدود رہ جائے گی۔ ویزا میں مشکلات اور سفری اخراجات سے بہت مشکل ہوگا۔

نئے قوانین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ صرف ویسٹ بینک داخلے کی اجازت کی صورت میں غیر ملکوں کو اردن کی زمینی کراسگ سے آنا پڑے گا۔ اور وہ غیر معمولی کیسز میں صرف اسرائیل کا بن گوریون ایئرپورٹ استعمال کرسکتے ہیں۔

خوری کے ایک بڑے سرمایہ کار اردن سے تعلق رکھتے ہیں۔ نئے قوانین میں اردن، مصر، مراکش، بحرین اور جنوبی سوڈان کے شہریوں کو شامل نہیں کیا گیا، اس کے باوجود کہ ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔

دہری شہریت سمیت ان ممالک کا پاسپورٹ رکھنے والے لوگ صرف غیر معمولی یا انسانی حقوق کی مہم کے تحت محدود دورانیے کے لیے ویسٹ بینک میں داخل ہوسکتے ہیں۔

کینیڈین فلاحی ادارے کیز ٹو ہیلتھ کے ڈاکٹر بنجامن تھامسن نے بھی ان قوانین کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ ان کا ادارہ شمالی امریکہ اور برطانیہ سے میڈیکل پروفیسر بھیج کر فلسطینی ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی شخص جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ اجازت ملنے میں کئی بار انتظامی تاخیر ہوتی ہے۔‘

’نئے قوانین سے تاخیر مزید سنگین ہوجائے گی، اخراجات بڑھیں گے اور ویسٹ بینک سے اندر اور باہر داخلے کے امکان کم ہوجائیں گے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ویسٹ بینک میں امدادی کاموں میں (اندر اور باہر جانے) کے امکانات پر غور بہت ضروری ہے۔ اس کی مدد سے کوئی ویسٹ بینک سے باہر آمدن کے لیے کام کرنے کا اہل رہ سکتا ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ نئے قوانین سے ڈاکٹر بطور رضاکار کام کرنے کی وجہ سے باہر کہیں اور کام نہیں کر سکیں گے۔

جولائی میں ہائیکورٹ نے اس درخواست کو قبل از وقت قرار دے کر خارج کر دیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی یونٹ طے کرے گا آیا یہ ان کا آخری فیصلہ ہے۔ تاہم سرکاری طور پر آن لائن شائع کیے جانے کے بعد سے ان قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اور ان ہی ان کے اطلاق کا شیڈول بدلا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں