آرمینیا کا آذربائیجان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان، 150 سے زائد فوجی ہلاک

باکو + یریوان (ڈیلی اردو/اے پی/انٹرفیکس/ڈی پی اے) آرمینیا میں سکیورٹی حکام نے نگورنو کاراباخ کے آس پاس دو دن کی گولہ باری کے بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ حالانکہ آذربائیجان کی وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک اس پیش رفت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

آرمینیا اور آذربائیجان نے مبینہ طور پر جنگ بندی کے ایک معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔ آرمینیا کے ایک سینیئر سیکورٹی اہلکار نے بدھ کی رات کو دیر گئے اس کی اطلاع دی۔

آرمینیا کی سلامتی کونسل کے سکریٹری آرمین گریگوریان نے ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی شراکت سے جنگ بندی طے پا گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی مقامی وقت کے مطابق رات کے 8 بجے سے نافذ ہوگئی۔

یہ اعلان پچھلے اس معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے، جو روس کی مدد سے منگل کے روز طے پایا تھا، تاہم چند گھنٹے کے بعد ہی ناکام ہو گیا تھا۔

گریگوریان کے اعلان سے چند گھنٹے قبل آرمینیا کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ گولہ باری بند ہو گئی ہے، تاہم اس نے جنگ بندی کے کسی معاہدے کا ذکر نہیں کیا تھا۔

آذربائیجان کا جنگ بندی پر کوئی تبصرہ نہیں

اس تازہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں آذربائیجان کی طرف سے ابھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور آذربائیجان کی وزارت دفاع نے ابھی تک اس کی تصدیق بھی نہیں کی ہے۔

ابتدا میں دونوں ممالک نے اشتعال انگیزی کے لیے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا تھا۔ سرحد پر دو روز تک ہونے والی گولہ باری میں 150 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

 آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے بدھ کے روزکہا تھا کہ آذربائیجانی فورسز نے جھڑپوں کے دوران آرمینیائی علاقے کے 10 مربع  کلومیٹر کے رقبے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

پشینیان نے ملکی پارلیمان کو یہ بھی بتایا کہ منگل کی صبح لڑائی شروع ہونے کے بعد سے ان کے ملک کے 105 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ادھر  آذربائیجان نے بھی اپنے 50 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

اس سے پہلے بدھ کے روز ہی ہزاروں مظاہرین آرمینیا کے دارالحکومت یریوان کی سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے وزیر اعظم نکول پشینیان پر الزام لگایا کہ وہ آذربائیجان کو خوش کرنے کے لیے اپنے ملک کے ساتھ غداری کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

ایک دوسرے پر الزام تراشی

نگورنو کاراباخ میں جھڑپوں کا آغاز منگل کی علی الصبح ہوا تھا اور دونوں ہی ممالک کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوسری جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزی کے خلاف متناسب جوابی کارروائی شروع کی تھی۔

آرمینیا کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ”منگل کو صبح تقریبا ًایک بجے کے بعد آذربائیجان نے توپ خانے اور بڑی صلاحیت والے آتشیں اسلحے کے ساتھ، گورس، سوٹک اور جرموک کے شہروں کی سمت میں آرمینیائی فوجی ٹھکانوں پر شدید گولہ باری کی۔”

لیکن آذربائیجان نے آرمینیا پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے پیر کی رات کو سرحدی اضلاع دشکیسان، کیلبازار اور لاشین کے قریب بڑی تعداد میں بارودی سرنگیں بچھانے کے ساتھ ہی ہتھیار جمع کر کے ”بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں ” شروع کی تھیں۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ اس کی افواج نے آرمینیائی فوج کی اشتعال انگیزی کے رد عمل میں، جو جوابی اقدامات کیے ہیں، وہ مقامی سطح کے ہیں اور ان کا مقصد اس عسکری ساز و سامان کو نشانہ بنانا ہے، جو فائرنگ کے مقامات سے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔”

نگورنوکاراباخ کا دیرینہ تنازعہ

 نگورنوکاراباخ کے علاقے میں آرمینیائی نسل کے لوگ آباد رہے ہیں، جس پر حالیہ دہائیوں میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیں۔

اس علاقے پر پہلے آذربائیجان کا کنٹرول تھا تاہم تقریباً 30 برسوں تک آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے قبضے میں رہا۔ لیکن سن 2020 میں چھے ہفتے کی جنگ کے بعد آذربائیجان نے اس کے بیشتر حصے پر اپنا کنٹرول دوبارہ بحال کر لیا اور پھر روس کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ علاقہ آذربائیجان کو سونپ دیا گیا۔

گزشتہ ہفتے آرمینیا نے آذربائیجان پر سرحدی فائرنگ کے تبادلے میں اس کے ایک فوجی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن  آذربائیجان کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں آرمینیا کی فوج بھی اس کے فوجیوں پر فائرنگ کرتی رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں