شام کی جنگ میں شدت: لاکھوں باشندوں کی جانوں کو خطرہ بڑھ گیا، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے خبر دار کیا ہے کہ شام کے لاکھوں باشندوں کو، جو ایک دہائی سے زیادہ کی جنگ برداشت کر چکے ہیں، مزید اموات اور زخمی ہونے کا سامنا ہو سکتا ہے کیوں کہ ملک کی شمالی سرحدوں پر لڑائی میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ شام کے بارے میں انکوائری کا غیر جانبدار انٹر نیشنل کمیشن اگلے ہفتے انسانی حقوق کی کونسل کو اپنی تازہ ترین رپورٹ پیش کرے گا۔

رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے تیس جون تک ، جائزے کے عرصے کے دوران، شمالی شام میں حکومت کے فضائی حملوں کی تعداد میں نمایاں کمی پائی گئی ہے۔ تاہم تین رکنی کمیشن نے ادلیب اور حلب میں دشمنیوں میں نمایاں اضافے کی نشاندہی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ لڑائی کی شدت میں اضافے کا خمیازہ سویلین بھگت رہے ہیں۔

رپورٹ میں شمالی علاقے حلب میں ہونے والے حملوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جن میں کم از کم 92 سویلینز ہلاک اور شہریوں کے گھر، اسکول، مساجد، میڈیکل مراکز اور انتظامی عمارات تباہ ہو گئی ہیں۔

کمیشن کے چئیر مین پاولو پن ہیرو نے کہا ہے کہ حکومت نواز فورسز اور حزب اختلاف کے مسلح گروپس کے درمیان لڑائی میں بیسیوں عام شہری، جن میں بچے شامل ہیں، ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ، روس ابھی تک شامی حکومت کی بھر پور طریقے سے مدد کر رہا ہے، خاص طور پر فضائی حملوں کے سلسلے میں، جن سے سویلینز ہلاک ہو رہے ہیں اور خوراک اور پانی کی رسدوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

پن ہیرو نے کہا ہے کہ،” اگلے محاذ کے علاقوں میں رہنے والے خاندانوں کو ان علاقوں میں حکومت نواز فورسز کی زمین سے زمین تک کی جانے والی گولہ باری سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔

پن ہیرو نے کہا ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور ترکیہ کے اس طویل تنازع میں فوجی شمولیت مسلسل جاری ہے۔ انہوں نے کہا،” مجھے کہنے دیجئے کہ شام بڑی سطح کی اس لڑائی کے نقصانات کو برداشت نہیں کر سکتا لیکن ممکن ہے کہ یہ اسی سمت جار رہی ہو “،

رپورٹ میں الہول کیمپ کے بگڑتے ہوئے حالات کو اجاگر کیا ہے ، جہاں داعش کے عسکریت پسندوں کی ہزاروں سابق بیویوں اور بچوں کو رکھا جارہا ہے۔

پن ہیرو نے مزید کہا کہ الہول اور شمال مشرق کے دوسرے کیمپوں میں خاص طور پر صورتحال تشویشناک ہے۔ ان کے پاس صحت کی مناسب دیکھ بھال اور تعلیم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ اور ان کیمپوں کے اندر ہونے والے تشدد کے باعث لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

نوعمر بچے جب بالغ ہو جاتے ہیں تو انہیں مبینہ طور پر داعش جنگجووں کے ساتھ فوجی حراستی مراکز میں منتقل کیے جانے کا خطرہ درپیش ہے جہاں انہیں کوئی قانونی مدد حاصل نہیں ہوتی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام کے ہزاروں باشندے بدستور جبری طور پر گمشدہ یا لاپتہ ہیں۔ اپنے عزیزوں کو تلاش کرنے والے خاندان، گرفتاری، دھمکیوں اور زیادتیوں کے خطرے سے دوچار ہیں جب کہ تلاش کا یہ کام اکثر اوقات خواتین کرتی ہیں۔

کمیشن نے شامی پناہ گزینوں کے ایسے متعدد کیسز رپورٹ کیے ہیں جنہیں گھر واپسی کے تھوڑی ہی دیر بعد سرکاری فورسز نے گرفتار اور حر است میں لیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے اس لیے اپنے آبائی قصبوں اور دیہاتوں میں واپس نہیں جا سکتے کیوں کہ ان کی املاک کو ضبط کیا جا چکا ہے۔

کمیشن نے پڑوسی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ شامی پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کے اپنے ممکنہ منصوبوں کو ختم کر دیں کیوں کہ ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں