افغانستان: کابل کے ‘کاج ایجوکیشن سینٹر’ میں خودکش دھماکا، 32 افراد ہلاک، درجنوں زخمی

کابل (ڈیلی اردو) فغانستان کے دارالحکومت کابل کے ‘کاج ایجوکیشن سینٹر’ میں جمعے کو خودکش حملے کے نتیجے میں اب تک 32 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔
یہ حملہ صبح اس وقت کیا گیا جب بہت سے طلبہ وہاں امتحان دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ کابل کے دشت برچی نامی جس علاقے میں یہ خود کش حملہ کیا گیا، وہاں زیادہ تر ہزارہ نسل کی اقلیتی برادری کے شیعہ مسلمان رہتے ہیں۔ یہ طاقت ور بم حملہ افغ‍انستان میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے سب سے ہلاکت خیز بم حملوں میں سے ایک ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران کا کہنا ہے کہ خود کش حملے میں 19 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے اور کم از کم 27 افراد زخمی ہیں۔

ترجمان کے مطابق تعلیمی ادارے میں خودکش حملہ اُس وقت ہوا جب وہاں داخلے کا امتحان جاری تھا۔ افغانستان میں عموماً جمعے کے روز تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں۔

پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ “معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا دشمن کی غیر انسانیت اور اور اخلاقی اقدار کی کمی کو ثابت کرتا ہے۔

رائٹرز’ کے مطابق ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکے میں اب تک 23 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ سرکاری طور پر جاری ہونے والے اعداد و شمار میں بتائی جانے والی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔

طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔

مقامی شہری غلام صاق نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ “وہ اپنے گھر میں موجود تھے کہ اچانک ایک زور دار آواز آئی اور جب انہوں نے باہر جا کر دیکھا تو تعلیمی ادارے سے دھواں اٹھتا نظر آیا جس کے بعد اہلِ علاقہ مدد کے لیے جمع ہو گئے۔

ان کے بقول انہوں نے اپنے دوست کی مدد سے دھماکے کے مقام سے 15 زخمیوں اور نو مردہ افراد کو باہر منتقل کیا جب کہ دیگر لاشیں کلاس روم کی کرسیوں اور ٹیبلوں کے نیچے موجود تھیں۔

ابھی تک کسی گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

لیکن ہزارہ برادری جن میں سے اکثریت شیعہ مسلمان ہیں، کو طویل عرصے سے نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ اور طالبان دونوں کی طرف سے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دولت اسلامیہ اور طالبان، یہ دونوں گروہ سنی اسلام کے ماننے والے ہیں۔

ہزارہ افغانستان میں تیسری بڑی نسلی اقلیت ہیں۔

امریکہ کی جانب سے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

افغانستان میں امریکی مشن کی چارج ڈی افیئرز، کیرن ڈیکر نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے ’امتحان دینے والے طلبا سے بھرے کمرے کو نشانہ بنانا شرمناک ہے۔ طلبا کو بنا کسی ڈر و خوف کے تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔‘

یار رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں دھماکوں کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔

دشت برچی کے علاقے میں سکولوں اور ہسپتالوں کو سلسلہ وار حملوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

گذشتہ برس طالبان کے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے دشت برچی میں لڑکیوں کے ایک سکول پر بم حملے میں کم از کم 85 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر طالبات شامل تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں