ایران میں مظاہروں میں امریکہ اور اسرائیل ملوث ہے، سپریم لیڈر خامنہ ای

تہران (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) ایرانی سپریم لیڈر نے ملک میں کئی ہفتوں سے جاری پرتشدد مظاہروں سے متعلق اپنی خاموشی توڑتے ہوئے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان مظاہروں کے شرکاء کو ’نظم و ضبط‘ کا پابند بنائیں۔ ان مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عوامی سطح پر ایران میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہونے والے سب سے شدید اور وسیع مظاہروں پر رد عمل میں اپنی کئی ہفتوں کی خاموشی توڑتے ہوئے ان مظاہروں کو ‘فسادات‘ قرار دے کر ان کی مذمت کی اور امریکہ اور اسرائیل پر ان مظاہروں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا۔

ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں پیدا ہونے والی بدامنی حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کی کوششوں کے باوجود تین ہفتوں سے جاری ہے۔ پیر تین اکتوبر کے روز طالب علموں اور پولیس کے درمیان گھنٹوں تک جاری رہنے والی محاذ آرائی کے بعد ملک کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی یونیورسٹی بند کر دی گئی۔

یہ یونیورسٹی پولیس اور نوجوانوں کے درمیان کشیدگی کا تازہ ترین میدان بن گئی تھی  اور پھر وہاں جاری احتجاج  اس ادارے کی بندش اور سینکڑوں نوجوانوں کو گرفتاری پر منتج ہوا۔

پیر کے روز تہران میں زیر تربیت پولیس اہلکاروں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ وہ پولیس حراست میں 22 سالہ کرد نژاد ایرانی شہری مھسا امینی کی ہلاکت پر’دل برداشتہ‘ ہیں اور اسے ایک ‘افسوسناک واقعہ‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ان مظاہروں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں ایران کو غیر مستحکم کرنے کی غیر ملکی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ”یہ فساد منصوبہ بندی کے تحت تھا۔ تہران میں ان فسادات اور عدم استحکام کو امریکہ اور صیہونی حکومت اور ان کے ملازمین نے تیار کیا تھا۔‘‘

دریں اثنا تہران میں شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نے اعلان کیا ہے کہ اتوار کی شام کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے بعد اگلے نوٹس تک صرف ڈاکٹریٹ کے طالب علموں کو ہی کیمپس میں آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس ضمن میں عینی شاہدین کا کہناتھا کہ حکومت مخالف مظاہرین  اور سخت گیر اسٹیبلشمنٹ کے حامی طالب علموں کے مابین جھڑپیں ہوئی تھیں۔

ایران میں اس تازہ ترین احتجاجی تحریک نے ملک میں حالیہ برسوں میں دیکھی گئی سب سے وسیع بدامنی کو جنم دیا ہے۔ یہ تحریک ایران کے سخت اسلامی ڈریس کوڈ کی مبینہ طور پر خلاف ورزی کرنے کے الزام میں مھسا امینی کی گرفتاری  اور پھر دوران حراست ان کی موت کے ردعمل میں سامنے آئی۔ تاہم اب یہ احتجاج ایرانی قیادت کے لیے ایک کھلا چیلنج بن گیا ہے ، جس میں’ڈکٹیٹر، مردہ باد‘ کے نعرے رات کو اندھیرا ہو جانے کے بعد بھی گلیوں اور گھروں کی بالکونیوں سے گونجتے رہتے ہیں۔

خامنہ ای نے پیر کے روز اپنے بیان میں مظاہرین کی جانب سے حجاب اتارنے، مساجد، بینکوں اور پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے مناظر کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”ایسے اقدامات معمول کے مطابق نہیں اور غیر فطری ہیں۔‘‘ ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 41  تک ہو سکتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نےان مظاہروں کے دوران اموات کی تعداد 52 بتائی ہے، جن میں پانچ خواتین اور اتنی ہی تعداد میں بچے بھی شامل تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور مقامی حکام نے کم از کم 1500 گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہروں کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے  درجنوں فنکاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو  بھی حراست میں لے رکھا ہے۔  ساتھ ہی درجنوں صحافیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اتوار کے روز حکام نے تہران کے ایک اقتصادی جریدے کے رپورٹر البروز نظامی کو گرفتار کیا تھا۔

سپریم لیڈر خامنہ ای نے کہا ہے کہ ملک کو ‘سبوتاژ‘ کرنے کے لیے بدامنی پھیلانے والے سخت قانونی چارہ جوئی اور سزا کے مستحق ہیں۔ انہوں نےمزید کہا کہ وہ نوجوان جو انٹرنیٹ پر کسی چیز کو دیکھنے کے بعد جوش و خروش سے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، انہیں ‘نظم و ضبط‘ کا پابند بنایا جانا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں