فلپائن: سابق صدر پر تنقید کرنے والے صحافی کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا

منیلا (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) سابق صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کی اکثر نکتہ چینی کرنے والے ایک ریڈیو صحافی کو حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ صحافیوں کی تنظیم نیشنل یونین آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ حکام صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

فلپائن پولیس نے منگل کے روز بتایا کہ پرسی لیپیڈ کے نام سے معروف ریڈیو صحافی پرسیول ماباسا کو دارالحکومت منیلا کے نواح میں موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اس واقعے کی میڈیا گروپوں، سماجی کارکنوں، حزب مخالف کے سیاست دانوں اور غیر ملکی سفارت خانوں کی طرف سے مذمت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ماباسا کے “دیدہ دلیری” سے قتل کے اس واقعے کو صحافت کی آزادی کے لیے دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ منگل کی شام کو منیلا میں مظاہرین نے اس کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔

پرسی لیپیڈ کو کیسے قتل کیا گیا؟

 63 سالہ ماباسا کو منیلا کے نواحی علاقے لاس پناس میں ان کے گھر کے قریب ایک رہائشی کمپاونڈ کے گیٹ پر موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ وہ ڈی ڈبلیو بی ایل ریڈیو اسٹیشن میں اپنی ڈیوٹی پر کار سے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

قومی پولیس نے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے اور کہا کہ اس کیس کی انکوائری کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی جائے گی۔

پولیس سربراہ جمی سانٹوس نے ایک بیان میں کہا،”ہم اس امکان کو مسترد نہیں کر رہے ہیں کہ فائرنگ کا تعلق میڈیا میں ماباسا کے کام سے ہو سکتا ہے۔”

ماباسا کے یو ٹیوب چینل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سابق صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے اور موجودہ صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر  کی انتظامیہ کی بعض پالیسیوں اور عہدیداروں کی تنقید کرتے تھے۔

ملکی اور بین الاقوامی مذمت

فلپائن کی نیشنل یونین آف جرنلسٹس نے ایک بیان میں کہا کہ ”یہ واقعہ میٹرو منیلا میں پیش آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجرم کتنے دیدہ دلیر تھے، اور حکام صحافیوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی نقصان سے بچانے میں کس طرح ناکام رہے ہیں۔”

یونین نے کہا کہ ماباسا “ریڈ ٹیگنگ” کے سخت ناقد تھے۔ یہ عامیانہ اصطلاح حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو کمیونسٹ کے ہمدرد قرار دے کر مسترد کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ وہ آن لائن قمار بازی کے کاروبار اور مارشل لا کے متعلق غلط معلومات کے بھی خلاف تھے۔

ماباسا کے اہل خانہ نے اس قتل کو “قابل مذمت جرم” قرار دیا اور “اس کے بزدل قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے” کا مطالبہ کیا۔

ہالینڈ، کینیڈا اور برطانیہ کے سفارت خانوں نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور فوری اور مکمل تحقیقات پر زور دیا ہے۔

کینیڈا کے سفارتخانے نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ”فلپائنی حکام پر زور دیا گیا کہ وہ نہ صرف مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں، بلکہ صحافیوں کے لیے ایک محفوظ ماحول پیدا کریں تاکہ وہ اپنی جانوں اور حفاظت کے لیے بغیر کسی خوف کے اپنا کام کر سکیں۔”

فلپائن میں آزادی صحافت کی کیا صورتحال ہے؟

گزشتہ ماہ ہی وسطی فلپائن میں ایک اور ریڈیو صحافی رے بلانکو کو چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

فلپائن کا صحافتی ماحول ایشیا میں زیادہ آزاد خیال ہے، پھر بھی یہ، بالخصوص دیہی علاقوں میں، کام کرنے کے لحاظ سے ایک خطرناک جگہ ہے۔

رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق 1987 سے اب تک ملک میں کم از کم 187 صحافی مارے جا چکے ہیں، جن میں 2009 میں ایک ہی واقعے میں 32 صحافی ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک انتخابی جلسے کے دوران ایک اپوزیشن لیڈر، ان کے حامیوں پر حملہ کیا گیا اور اس کی کوریج کرنے والے صحافی اس حملے میں مارے گئے۔

نیویارک سے سرگرم صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے 2021 میں فلپائن کو اپنے عالمی استثنیٰ کے انڈیکس میں 13 ویں نمبر پر رکھا اور 13 صحافیوں کے قتل کی طرف اشارہ کیا جن کے کیس ابھی تک حل نہیں ہوسکے ہیں۔

فلپائنی نژاد نوبل امن انعام یافتہ صحافی ماریا ریسا  اور ان کے ادارے ریپلر کے خلاف بارہا اور طویل عرصے تک چلنے والے مقدمات کی وجہ سے پریس کی آزادی، غلط معلومات اور ممکنہ حکومتی ظلم و ستم جیسے مسائل منظر عام پر آتے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں