سوات میں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مبینہ مقابلے میں دو افراد کی ہلاکت، اہلخانہ کا بے گناہی کا دعویٰ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’حلف اٹھاتے ہیں کہ میرے والد اور بھائی کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی کوشش کر کے اس واقعے کی تفتیش کریں تو چند منٹوں میں پتا چل جائے گا کہ یہ لین دین کا معاملہ تھا جس میں ہمارے بھائی نے پیسے دینے تھے۔ اس میں سے کچھ پیسے ہم لوگوں نے ادا کر دیے تھے اور کچھ ادا کرنے رہتے تھے کہ درمیان میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار آ گئے۔‘

یہ کہنا ہے گذشتہ روز صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات کے شہر مینگورہ بائی پاس کے قریب سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مبینہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے علی سید کے بیٹے اور انیس احمد کے بھائی کا۔

یہ واقعہ چند دن قبل مینگورہ بائی پاس کے قریب پیش آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مالاکنڈ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے اپنی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے انیس ولد علی سید اور علی سید ولد حیدر مقامی پولیس اور سکیورٹی فورسز کی مشترکہ کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ آٹھ اکتوبر کو علاقہ انگروڈھیری حدود تھانہ رحیم آباد سوات میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع تھی جو سوات میں دہشت گردی کی کارروائی کے لیے میٹنگ کر رہے تھے، جن کے بارے میں خفیہ اداروں کو پہلے سے اطلاعات تھیں کہ علی سید اور ان کے بیٹے انیس احمد افغانستان میں دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے انٹیلیجینس معلومات کی بنیاد پر آپریشن شروع کیا، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں اہم دہشت گرد انیس اور علی سید ہلاک ہوئے جبکہ فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں کیپٹن ذوالفقار اور تین سپاہی زخمی ہوئے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہلاک دہشت گرد شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے سوات میں کمانڈر نوید اور مراد کے قریبی ساتھی ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں انیس احمد افغانستان میں چوگام، برہ ول، کونٹر مرکز گئے ہوئے تھے جہاں اُنھوں نے آئی ای ڈی کی تربیت حاصل کی تھی۔

’چھوٹے بھائی نے پیسے دینے تھے‘

غیاث احمد کہتے ہیں کہ کچھ دن پہلے والد صاحب کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ چھوٹے بھائی انیس احمد کا کچھ لوگوں کے ساتھ لین دین تھا۔ ’کیا لین دین تھا اس کی مکمل تفصیل کا پتا نہیں ہے، مگر ہمیں ایک بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ ہمارے بھائی نے پیسے دینے ہیں۔‘

غیاث احمد کا کہنا تھا کہ جب معاملہ اُن کے والد تک پہنچا تو اُن کے چھوٹے بھائی انیس احمد گھر سے فرار ہو گئے۔ غیاث کے بقول ان لوگوں نے ان کے والد پر کوئی مقدمہ درج کروا دیا جس کی تفصیلات کا اُنھیں علم نہیں ہے۔

’ہمیں جب پتا چلا تو ہم نے خود ان لوگوں سے بات کی۔ مجموعی رقم 35 لاکھ روپے میں سے بڑی رقم ادا کر دی اور بتایا کہ باقی رقم بھی جلد ادا کر دیں گے جس کے لیے جرگہ چل رہا تھا۔‘

غیاث احمد کا کہنا تھا کہ یہ سارا معاملہ وہ پولیس سے باہر جرگے کی مدد سے حل کر رہے تھے۔ ’جب ہم نے ان لوگوں کے کچھ پیسے ادا کر دیے تو میرا بھائی بھی منظر عام پر آ گیا جس کو والد صاحب نے بہت زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کی تھی۔ اس موقع پر ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اب اس کو پاکستان سے باہر سعودی عرب لے جاتے ہیں تاکہ وہ وہاں پر اپنی محنت مزدوری کرے اور پیسے کمائے۔‘

’سادہ لباس اہلکار بھائی کو اٹھا کر لے گئے‘

غیاث احمد کا دعویٰ ہے کہ ابھی ان کا یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ ایک دن سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار آئے اور وہ ان کے بھائی کو اٹھا کر لے گئے۔ ’دو دن تک تو پتا ہی نہیں چلا کہ بھائی کدھر ہے۔ والد صاحب اس کو تلاش کرتے رہے۔ دو دن بعد پتا چلا کہ وہ مقامی تھانے میں موجود ہے۔‘

ان کے مطابق ان کے والد نے بتایا کہ وہ مقامی تھانے گئے تو وہاں پر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ دو گھنٹے تک وہ تھانے کے باہر موجود رہے مگر کسی نے کوئی بات نہیں سنی۔ جس پر وہ واپس آ گئے اور فون کر کے بتایا کہ انتہائی پریشان ہیں، سمجھ نہیں آ رہا کہ ایسے کیوں کیا جا رہا ہے۔

غیاث احمد کہتے ہیں مینگورہ بائی پاس کے پاس ان کے والد کا وزن کرنے کا کانٹا ہے، واقعہ بھی اس کانٹے میں پیش آیا ہے۔

’ہوا یہ کہ اس کے بعد کچھ لوگ سادہ کپڑوں میں میرے بھائی انیس احمد کو لے کر کانٹے پر چلے گئے۔ جہاں پر والد صاحب بھی موجود تھے۔ اس جگہ پر ان لوگوں کا رویہ انتہائی نامناسب اور تحکمانہ تھا۔ کیمروں کی ویڈیوز سے دیکھ لیں کہ وہ کئی گھنٹے تک وہاں پر رہے۔‘

غیاث احمد کہتے ہیں کہ جب سادہ کپڑے میں موجود لوگ بھائی کے ہمراہ کانٹے پر تھے تو اس وقت ان کے والد نے فون کیا اور کہا کہ یہ لوگ بیٹے کے ساتھ بہت برا سلوک کر رہے ہیں، کبھی اس کو کہتے ہیں کہ ادھر بیٹھو، کھڑے ہو جاؤ، یہ کرو وہ کرو۔

غیاث احمد کہتے ہیں کہ ’ہم لوگوں نے بھی اس موقع پر مختلف لوگوں کو فون کیے۔ سب سے کہا کہ بھائی نے پیسے دینے ہیں۔ ہم نے اس بات کا اقرار کر لیا ہے کہ اس نے پیسے دینے ہیں۔ زیادہ رقم ادا کر دی ہے اب کچھ پیسے رہ گئے ہیں تو اس کے لیے ہمیں کچھ موقع دیا جائے وہ بھی ادا کر دیں گے۔‘

غیاث احمد کے ترکی میں رہائش پذیر ایک اور بھائی وقاص احمد نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور موقع پر موجود لوگوں سے ہمیں پتا چلا کہ جب سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے ان کے والد کے سامنے بھائی کو مزید ڈانٹ ڈپٹ اور دباؤ کا شکار کیا تو والد صاحب برداشت نہ کر سکے۔

’پہلے والد صاحب کی ان لوگوں کے ساتھ تکرار ہوئی۔ جس پر ان لوگوں نے اپنا اسلحہ نکالا تو والد صاحب نے اپنے پستول کے ساتھ ان پر فائرنگ کر دی۔ جس سے کچھ لوگ زخمی ہوئے اور دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔‘

وہ الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سادہ لباس افراد کی مزید مدد آئی اور انھوں نے بھائی کو اسی گاڑی میں جس میں بٹھایا تھا، فائرنگ کر کے قتل کیا، پھر والد صاحب کو بھی گولیوں کا نشانہ بنا کر چلتے بنے۔‘

’والد ایک سال قبل سعودیہ سے لوٹے تھے‘

وقاص احمد کا کہنا تھا کہ اُن کے والد نے ساری زندگی سعودیہ میں محنت مزدوری کرتے ہوئے گزاری ہے۔ ’ایک سال قبل ہی انھوں نے ہمیں کہا کہ اب وہ تھک گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان جا کر آرام کریں اور وہاں پر اپنی مصروفیت کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام کر لیں۔‘

’انھوں نے ہمیں کہا تھا کہ ہم لوگ اب جوان ہو چکے ہیں اب ہمیں معاملات کو سنبھالنا چاہیے۔ ہم چھ بھائی ہیں۔ تین بھائی بیرون ملک ہوتے ہیں۔ تین چھوٹے ہیں اور وہ پاکستان میں ہوتے ہیں۔ ان بھائیوں کے حوالے سے بھی ہمارا منصوبہ تھا کہ ان کو بھی تھوڑے تھوڑے عرصے بعد باہر ہی بلا لیں گے۔‘

وقاص احمد کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے سعودی عرب سے لوٹنے والے ان کے والد کیسے شدت پسند ہو سکتے ہیں، ’بھائی کا لین دین تھا جس کا ہم اقرار کر رہے تھے اب اس کی سزا قتل تو نہیں ہو سکتی۔

سوات پولیس کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ پولیس سے متعلق نہیں ہے اس لیے وہ اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے جبکہ سی ٹی ڈی سے جب ان الزامات کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے متعلق پریس ریلیز میں مؤقف بیان کر دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں