ناسا کا زمین کو کسی خلائی حملے سے بچانے کا کامیاب تجربہ

واشنگٹن ڈی سی (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی) ناسا نے دو ہفتے پہلے زمین کو کسی ممکنہ خلائی حملے سے بچانے کے لیے اپنے ایک خلائی جہاز کو ایک شہابیے سے ٹکرانے کا جو تجربہ کیا تھا، وہ توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ‘ناسا’ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو کسی ممکنہ خلائی خطرے سے بچانے کا پہلا تجربہ کامیاب ہو گیا ہے اور لاکھوں میل کے فاصلے پر گردش کرنے والے اس شہابیے نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا ہے ، جس سے ایک خلائی جہاز کو پوری قوت سے ٹکرا یا گیا تھا۔

ہماری زمین جس خلا میں سورج کے گرد گردش کر رہی ہے، اس میں اور بھی ان گنت چھوٹی بڑی خلائی چٹانیں جنہیں شہابیے کہا جاتا ہے، اپنے اپنے راستوں پر رواں دواں ہیں۔ لیکن جب کوئی شہابیہ زمین کے بہت قریب آ جاتا ہے تو زمین کی کششِ ثقل اسے اپنی جانب کھینچ لیتی ہے لیکن اسے زمین کی سطح تک پہنچنے کے لیے تقریباً ایک سو کلومیٹر کی ہوائی تہہ سے گزرنا ہوتاہے۔

شہابیوں کی رفتار کئی ہزار میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ جب وہ اس تیز رفتار کے ساتھ ہوا کی چادر میں داخل ہوتے ہیں تو رگڑ سے اس قدر حرارت پیدا ہوتی ہے کہ شہابیہ زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔

یہ مناظر کسی بھی تاریک رات میں، جب آسمان صاف ہو تو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ اچانک آسمان کے کسی حصے سے ایک چمک دار شے نمودار ہوتی ہے اور اپنے پیچھے لمبی روشن لکیر چھوڑتی ہوئی آناً فاناً نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اسے ہمارے ہاں ستارے کا ٹوٹنا کہا جاتا ہے۔

لیکن اگر شہابیہ بہت بڑا ہو تو یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ وہ ہوا کے غلاف سے گزرتے ہوئے مکمل طور پر نہ جل سکے اور اس کا کچھ حصہ زمین سے ٹکرا جائے۔ ایسی صورت میں، شہابیے کا ہدف بننے والے علاقے میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔

زمین کی سطح کے تجزیے سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ 60 کروڑ سال کے دوران زمین پر کم و بیش 60 ایسے شہابیے گر چکے ہیں جن کا قطر تین میل یا اس سے زیادہ تھا۔

ناسا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زمین کے مدار کے قریب 26 ہزار سے زیادہ شہابیے گردش کر رہے ہیں جن میں سے 2000 ایسے ہیں جن کا قطر ایک کلومیٹر یا اس سے زیادہ ہے۔ زمین سے ٹکرانے کی صورت میں وہ بڑے پیمانے پر تباہی برپا کر سکتے ہیں۔

کسی بڑے شہابیے کے ٹکرانے سے زمین پر کتنی تباہی آ سکتی ہے، اس کااندازہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے اس تباہی سے لگایا جا سکتا ہے جب ایک شہابیہ جس کا قطر 10 سے 15 کلو میٹر کے درمیان تھا، زمین کے اس حصے سے ٹکرایا جہاں اب میکسیکو ہے۔

یہ وہ دور تھا جب کرہ ارض پر لگ بھگ ایک کروڑ 80 لاکھ برسوں سے ڈائنو سارز راج کر رہے تھے۔ مگر یہ ان کے راج کا ہی نہیں بلکہ ان کی نسل کے وجود کا بھی آخری دن تھا۔ اس تصادم میں صرف ڈائنو سارز ہی آناً فاناً ہلاک نہیں ہوئے بلکہ دنیا بھر سے 75 فی صد تمام جان دار بھی مٹ گئے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس شہابیے کے ٹکرانے سے بڑے پیمانے پر حرارت خارج ہوئی اور فضا میں گرد و غبار کے بادل چھا گئے جنہوں نے سورج کی کرنوں کا زمین تک پہنچنے کا راستہ روک دیا۔ یہ کیفیت طویل عرصے تک جاری رہی جس سے آب و ہوا اور موسم بھی بدل گئے۔

کیلی فورنیابرکلے یونیورسٹی کے ایک ماہر طبعیات لوئیس والٹر الویز اور ان کے بیٹے والٹر نے شہابیے کا ہدف بننے والے علاقے میں زمین کے نمونے اکھٹے کر کے کتاب لکھی تھی۔ انہیں اس ریسرچ پر 1980 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شہابیوں کے زمین سے ٹکرانے کا خطرہ اب بھی موجود ہے اور کوئی بڑا شہابیہ صدیوں کی انسانی ترقی کو لمحوں میں ملیا میٹ کر سکتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ کئی برسوں سے وہ اس پہلو پر سوچ بچار کر رہے ہیں کہ ان کا راستہ کس طرح روک کر زمین کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کی جانب بڑھنے والے شہابیوں کی سمت بدل کر زمین کو کسی ممکنہ بڑی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ سال ناسا نے اس سلسلے میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کرنے والے ایک شہابیے ڈیمو فوس کا راستہ تبدیل کرنے کے لیے چھوٹے سائز کی ایک خلائی مشین ڈارٹ روانہ کی۔

ساڑھے 22 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی اس مشین کا حجم درمیانے سائز کے ایک ریفریجریٹر جتنا تھا۔ اس میں جدید آلات اور طاقت ور کیمرے نصب تھے جو زمینی مرکز کو مطلوبہ ڈیٹا مسلسل بھیج رہے تھے۔ ڈارٹ پر ایک چھوٹا سا سیٹلائٹ بھی تھا جسے شہابیے سے ٹکرانے سے چند لمحے قبل الگ کیا جانا تھا تاکہ وہ اپنے کیمرے سے تباہی کے اس منظر کی لائیو تصاویر زمینی مرکز کو بھیج سکے۔

اس تجربے کے لیے شہابیے ڈیموفوس کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیوں کہ وہ نسبتاً ایک بڑا شہابیہ یا تیرتی ہوئی خلائی چٹان ہے۔ اس کا قطر 160 میٹر ہے اور اس سائز کے شہابیے زمین کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم ڈیموفوس سے زمین کو کوئی خطرہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ لاکھوں میل کی دور ی پر ہے۔

ڈیموفوس ایک بڑے شہابیے کے گرد چکر لگا رہا ہے اور یہ چکر 11 گھنٹے اور 55 منٹ میں مکمل ہوتا ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں اس کی حیثیت ایک بڑے شہابیے کے چھوٹے چاند کی سی ہے۔

ڈارٹ ایک خودکش مشن کے تحت 26 ستمبر کو ڈیمو فوس سے ٹکرایا۔ اس ٹکر سے شہابیے کی سطح پر ایک گڑھا نمودار ہوا اور اس سے بلند ہونے والا گرد و غبار اور چٹان کے باریک ٹکڑے دم دار ستارے کی طرح کئی ہزار میل تک ایک لکیر کی صورت میں پھیل گئے۔ جس کا مشاہدہ سیٹلائٹ اور خلائی دور بینوں کے ذریعے کیا گیا۔

ناسا کے ماہرین کا اندازہ تھا کہ اس ٹکر کے نتیجے میں ڈیمو فوس کا راستہ تبدیل ہونے سے اپنے مدار میں اس کی گردش میں 10 منٹ کا فرق پڑ جائے گا۔ لیکن دو ہفتوں تک اس پر مسلسل نظر رکھنے کے بعد پتا چلا ہے کہ ٹکر کے بعد ڈیمو فوس کی گردش میں 32 منٹ کا فرق ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اندازوں اور توقع سے بڑھ کر کامیابی ہے۔

واشنگٹن میں ناسا کے ہیڈ کوارٹرز میں ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ ہمارا یہ مشن یہ ظاہر کرتا ہے کہ ناسا خود کو کسی بھی ایسی چیز سے مقابلے لیے تیار کر رہا ہے جو خلا سے ہماری جانب پھینکی جائے گی۔

خلا سے زمین کی جانب بڑھنے والی کسی بھی چیز کا راستہ بدلنے کے اس اولین تجربے پر ساڑھے 33 کروڑ ڈالر لاگت آئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں