چمن: پاکستانی فوج اور افغان طالبان کے درمیان جھڑپیں، 7 افراد ہلاک، 27 زخمی

کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان اور افغانستان میں چمن کی سرحد پر ایک بار پھر پاکستانی فورسز اور افغان طالبان میں شدید جھڑپ ہوئی ہے اس دوران سات افراد ہلاک جب کہ 27 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

https://twitter.com/Natsecjeff/status/1601910554620223492?t=RpN2Va0qL3yChy1ozj6rJg&s=19

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق افغانستان میں سرحد کی حفاظت پر مامور اہلکاروں نے پاکستان میں چمن کی عام آبادی والے علاقے کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا ہے۔

اتوار ہونے والی جھڑپوں کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے بلااشتعال ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری سے چھ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 17 زخمیوں کو طبی امداد دی گئی ہے۔

پاکستان کی فوج نے اپنے بیان میں اس جھڑپ میں ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کو عام شہری قرار دیا ہے جب کہ کسی بھی اہلکار کے نشانہ بننے کے حوالے سے تفصیلات بیان میں شامل نہیں ہیں۔

فوج نے بیان میں جوابی کارروائی کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق پاکستانی فورسز نے بلا اشتعال جارحیت کے جواب میں کارروائی کی البتہ اس دوران افغان علاقے میں عام شہریوں کی تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان حکام سے رابطہ کرکے صورتِ حال کی شدت سے آگاہ کیا ہے جب کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب وائس آف امریکہ کی ’دری سروس‘ کے مطابق افغانستان کے پاکستان کے ساتھ ملحق صوبہ قندھار کے گورنر کے ترجمان حاجی زید نے بتایا ہے کہ ان جھڑپوں میں طالبان کا ایک اہلکار ہلاک ہوا ہے جب کہ 10 افراد زخمی ہوئے جن میں سات طالبان اور تین عام شہری شامل ہیں۔

جھڑپوں کے دوران چمن سرحد کو بند کر دیا گیا تھا البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ سرحد اب مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے یا صرف بڑی گاڑیوں کے گزرنے پر پابندی عائد ہے۔

اطلات کے مطابق دونوں جانب سے فائرنگ کا سلسلہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اس وقت شروع ہوا جب چمن سرحد پر شیخ لال محمد نامی گاؤں میں پاکستانی فورسز کی لگائی گئی باڑ اکھاڑنے کی کوشش کی گئی۔

دوسری جانب افغان میڈیا میں یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ سرحد کے قریب افغان طالبان نے ایک اور چوکی بنانے کی کوشش کی تھی جس پر دو طرفہ فائرنگ شروع ہوئی۔

جھڑپوں کے دوران پاکستان کی فوج اور افغان طالبان نے بھاری ہتھیاروں کا بھی مسلسل استعمال کیا۔

رپورٹس کے مطابق اس تنازعے میں متعدد راکٹ پاکستان کی فورسز کے کیمپ کے قریب رہائشی علاقے پر گرے جس سے عام افراد نشانہ بنے۔

سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بعض گولے پھٹ نہیں سکے جنہیں شہری دکھا رہے ہیں کہ ان سے کیا نقصان ہوا ہے۔

اسی طرح بعض غیر مصدقہ ویڈیوز میں چمن کی ایک شاہراہ پر کئی ہلاک اور زخمی افراد موجود ہیں جن کی مدد کی جا رہی ہے۔

چمن کے سول اسپتال کے ایک ڈاکٹر رشید اچکزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سول ہسپتال میں پانچ ہلاک افراد کی لاشیں اور 15 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔

خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں جہاں جھڑپیں ہوئی ہیں وہاں گنجان آبادی موجود ہے اس لیے اموات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ بھی چمن سرحد پر فائرنگ سے پاکستان کا ایک سیکیورٹی اہلکار مارا گیا تھا جس کے بعد کئی دن تک بابِ دوستی کو بند رکھا گیا تھا اور سرحد پر آمد و رفت معطل تھی۔

اس وقت حکام کی ملاقات میں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے نمائندوں نے دہشت گردی اور دونوں ممالک کے درمیان حالات خراب کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرکے سخت سزا دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

چمن سرحد سے دونوں جانب یومیہ 15 سے 20 ہزار افراد سفر کرتے ہیں جب کہ پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت سینکڑوں مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے۔

مبصرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب طالبان حکومت کو تاحال دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان کے نو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے منجمد ہیں۔ طالبان کے پاکستان کے ساتھ بھی تنازعات آئے روز شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں