بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہمارے 132 جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں، ماؤ نواز باغیوں کا اعتراف

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) نے اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ 11 مہینوں میں اس کے 132 جنگجو پولیس کے ساتھ تصادم میں مارے گئے ہیں۔

چھتیس گڑھ کے علاوہ یہ انکاؤنٹر مہاراشٹر کے گڈچرولی، ریاست جھارکھنڈ، تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ہوئے۔

تنظیم نے اس حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس کی ایک کاپی پولیس کو بھی مل گئی ہے۔ رپورٹ پر تنظیم کی مرکزی کمیٹی کے ترجمان ’ابھے‘ کے دستخط ہیں۔

بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں چھتیس گڑھ کے بستر ڈویژن کے انسپکٹر جنرل آف پولیس پی سُندرراج نے کہا کہ یہ ’رپورٹ درست ہے‘ اور پولیس نے کئی ذرائع سے اس کی تصدیق کی ہے۔

تنظیم اپنی یونٹ ’پیپلز لبریشن گوریلا آرمی‘ کے قیام کی 22 ویں سالگرہ منا رہی ہے اور اسی سلسلے میں یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔

اس گوریلا آرمی کی تشکیل 200 میں ہوئی تھی اس کے کمانڈر ان چیف کوٹیشور راؤ رہے ہیں جو مغربی بنگال میں ایک انکاؤنٹر میں مارے گئے تھے۔

تنظیم نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ 11 مہینوں میں اس نے ’200 گوریلا لڑائیاں‘ لڑی ہیں جس میں سیکیورٹی فورسز کے 57 فوجی اور افسران ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 154 فوجی اور افسران زخمی بتائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ گذشتہ 11 ماہ میں تنظیم نے 69 مخبروں کو بھی ہلاک کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مرکزی نیم فوجی دستوں سمیت چھ لاکھ سے زیادہ سیکورٹی فورسز کو وسطی انڈیا اور آس پاس کی ریاستوں جیسے مہاراشٹرا، تلنگانہ، آندھرا پردیش، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ میں تعینات کیا گیا ہے۔

جب ماؤ نواز باغیوں کا تشدد اپنے عروج پر تھا تب انڈین پولیس سروس کے ایک سینیئر افسر کے۔ وجے کمار سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ وہ داخلی سلامتی کے امور کے لیے وزیر اعظم کے دفتر میں مشیر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ماؤ نواز باغیوں کی جانب سے جاری کردہ خط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس تشدد میں اُنھیں کتنا نقصان پہنچا ہے۔ ساتھ ہی یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ماؤ نواز پیچھے ہٹ رہے ہیں اور کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کے حوالے سے رپورٹ میں ماؤ نواز جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ نکسل سے متاثرہ علاقوں میں اتنی تعداد میں سیکورٹی فورسز تعینات نہیں ہیں۔

مرکزی وزارت داخلہ نے دو ماہ قبل جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کئی ریاستوں میں ماؤ نوازوں کے خلاف منظم مہم کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز ’جھارکھنڈ کی سرحد کے انتہائی دشوار گزار علاقوں، بہار میں بدھا پہاڑ اور چکربندھا اور بھیم بند‘ میں داخل ہوئیں اور ماؤنوازوں کو کامیابی کے ساتھ ان کے مضبوط گڑھوں سے نکال باہر کیا اور وہاں مستقل کیمپ قائم کیے۔‘

مرکزی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں مقامات اہم ماؤنواز لیڈروں اور عسکری تنظیموں کے گڑھ تھے۔ ایک سخت مہم کے بعد سیکورٹی فورسز نے ان مقامات سے بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود، غیر ملکی دستی بم، ایرو بم اور آئی ای ڈی برآمد کی، جو اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

وزارت کا کہنا ہے کہ صرف اس سال یعنی 2022 میں، ماؤنوازوں کے خلاف جاری لڑائی میں، سیکورٹی فورسز کو ’آپریشن آکٹوپس‘، ’آپریشن ڈبل بُل‘ جیسے آپریشنز میں’ متوقع کامیابی‘ ملی ہے۔

وزارت کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اس عرصے کے دوران چھتیس گڑھ میں سات ماؤ نواز مارے گئے جبکہ 436 کو گرفتار کیا گیا یا ان میں سے کئی نے ہتھیار ڈال دیے۔

جھارکھنڈ میں چار ماؤ نواز مارے گئے جبکہ 120 کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح بہار میں 36 ماؤ نوازوں کو گرفتار کیا گیا اور مدھیہ پردیش میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں تین ماؤ نواز مارے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’یہ کامیابی اس لیے بھی اہم ہے کہ اس دوران مارے جانے والے کئی ماؤنوازوں پر لاکھوں روپے کے انعامات تھے۔ جن میں متھلیش مہتو اور کشن دا پر ایک کروڑ کا انعام تھا۔

وزارت داخلہ کی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2018 کے مقابلے میں 2022 میں نکسلی تشدد کے واقعات میں 39 فیصد کی کمی آئی ہے۔ اس عرصے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد میں 26 فیصد کمی آئی ہے جبکہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں 44 فیصد کمی آئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے 2018 میں نکسل سے متاثرہ اضلاع کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔ جو کہ پانچ ریاستوں کے صرف 39 اضلاع تک محدود ہے اور 2008 میں 251 اضلاع اس سے متاثر ہوئے تھے۔

اگر 2018 کا 2022 سے موازنہ کیا جائے تو 2018 میں 240 فوجی انکاؤنٹر میں مارے گئے جب کہ 2019 میں 202، 2020 میں 183، 2021 میں 147 اور اس سال اب تک 57 فوجی اور افسران مارے جا چکے ہیں۔

پولیس کے سینیئر افسر وجے کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ جن ریاستوں نے نکسل ازم کو ختم کرنے میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے وہ ریاست آندھرا پردیش اور تلنگانہ ہیں، جہاں صرف نکسل سے متاثرہ علاقے چھتیس گڑھ سے متصل ہیں۔ ان کے مطابق ماؤنوازوں کو جھارکھنڈ میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔

جھارکھنڈ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نیرج سنہا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار سکیورٹی فورسز ایسی جگہوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئیں جہاں کئی دہائیوں تک جانا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ علاقے ناقابل رسائی تھے اور نقل و حرکت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

وزارت داخلہ کا دعویٰ ہے کہ ’اگر 2014 سے پہلے کا موازنہ کیا جائے تو نکسلیوں کے تشدد کے واقعات میں 77 فیصد کی کمی آئی ہے۔ وزارت نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے حوالے سے کہا ہے کہ تشدد میں اموات کی شرح میں بھی 85 فیصد کمی آئی ہے جو کہ 2010 میں 1005 تک تھی۔ تاہم 2021 میں مرنے والوں کی تعداد کم ہو کر 147 ہو گئی ہے۔

ڈی جی پی نیرج سنہا کا کہنا ہے کہ جھارکھنڈ پولس نے گذشتہ 11 مہینوں میں نکسل مخالف مہم میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ گذشتہ تین دہائیوں میں نہیں ملی۔ اُنھوں نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب نکسلیوں کے ناقابل تسخیر گڑھ یعنی بدھ پہاڑ پر مہم چلائی جا سکتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہاں سے بڑی تعداد میں غیر ملکی اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد ملا ہے۔ ’اب سب سے بڑا چیلنج بارودی سرنگوں کا ہے۔ جو مہم چل رہی ہے اس مہم کو ’آپریشن ڈبل بل‘ اور ’آپریشن تھنڈرسٹارم‘ کا نام دیا گیا ہے۔‘

ماؤ نواز گوریلا بھی پکڑے گئے ہیں۔ اس وقت بارودی سرنگوں کو ہٹانے کا کام جاری ہے۔ اس میں افسروں اور جوانوں نے بہت محنت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے۔

نکسل مخالف آپریشن کے انسپکٹر جنرل امول ہومکر کا کہنا ہے کہ ریاست کے کولہن، سرندا اور سنگھ بھوم علاقوں میں سیکورٹی فورسز کو کافی کامیابی ملی ہے۔

جھارکھنڈ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ جھارکھنڈ میں جاری کارروائیوں کی وجہ سے ماؤ نوازوں کو یکے بعد دیگرے بڑے دھچکے لگ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال 21 نومبر کو ماؤ نوازوں کے دوسرے سب سے بڑے لیڈر پرشانت بوس عرف ’کشن دا‘ کو گرفتار کیا گیا تھا، جن پر ایک کروڑ روپے کا انعام رکھا گیا تھا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) کے سب سے بڑے لیڈر یعنی جنرل سکریٹری نمبالا کیشو راؤ عرف بسواراج کے بعد کالعدم تنظیم میں دوسرے نمبر پر تھے۔

اسی طرح ماؤ نوازوں کی مرکزی کمیٹی کے اعلیٰ ماؤ نواز کمانڈروں جیسے شیلا مرانڈی، روپیش کمار سنگھ، پردیومن شرما، نند لال سورین، رمیش گنجو، بلرام اوراون اور بھیکھن گنجو کو مختلف مقامات پر انکاؤنٹر کے دوران گرفتار کیا گیا۔

انڈین پولیس سروس کے سینیئر افسر وجے کمار کا کہنا ہے کہ اب لڑائی کا مرکز چھتیس گڑھ کے جنوبی بستر کے اضلاع تک محدود ہے۔

یہ وہ علاقے ہیں جہاں ماؤ نواز سب سے زیادہ مضبوط ہیں اور ان سے نمٹنا پولیس اور سیکورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ چھتیس گڑھ کے سکما اور بیجاپور کے علاوہ نارائن پور اس وقت ملک میں نکسلی تشدد کا سب سے حساس علاقہ ہے۔

لیکن بستر ڈویژن کے انسپکٹر جنرل آف پولیس پی سندرراج، جو نکسل مخالف مہم کی قیادت کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر مشکل علاقے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ نکسلی بارودی سرنگیں بنا رہے ہیں اور گھنے جنگلات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جہاں سیکورٹی فورسز کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا ’ہم ان علاقوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور کیمپ قائم کر رہے ہیں۔ یہ دشوار گزار علاقے ہیں، اس لیے ہم نے ماؤنوازوں کی ’سپلائی چین‘ اور ان کے نکلنے کے راستوں کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ان علاقوں میں مزید ماؤ نواز کیمپ نہیں لگا سکتے۔‘

چھتیس گڑھ میں کئی نکسل گوریلوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں، لیکن بستر ڈویژن کے انسپکٹر جنرل آف پولیس پی سندرراج کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں بڑے لیڈر یا کمانڈر ہتھیار ڈال رہے ہیں۔

سندرراج کا کہنا ہے کہ چھتیس گڑھ میں ہتھیار ڈالنے کا پیکج زیادہ پرکشش ہے، ماؤ نواز کمانڈر جو تلنگانہ یا آندھرا کے رہنے والے ہیں وہاں ہتھیار ڈال رہے ہیں تاکہ وہ اپنی جگہ، اپنے گاؤں یا شہر میں دوبارہ آباد ہوسکیں۔ گونڈ قبائلی ہوں یا کویا قبائلی، چھتیس گڑھ کے لوگ یہاں خود ہتھیار ڈال رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ماؤ نواز ہتھیار اس لیے ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے گِرد گھیرا تنگ ہوتا محسوس کر رہے ہیں اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ سکیورٹی فورسز کے ان نئے کیمپوں کی وجہ سے ان کی مشکلیں بڑھ رہی ہیں۔ ان کیمپوں کو ’فارورڈ آپریشنل بیس‘ کہا جاتا ہے۔

ماؤ نوازوں کا یہ بھی الزام ہے کہ پولیس جنگل کے دیہی علاقوں میں ڈرون کا استعمال کر رہی ہے اور اُنھیں جنگلوں میں بم گرانے کے لیے بھی استعمال کر رہی ہے۔

ان کا الزام ہے کہ ان نئے کیمپوں سے عام قبائلیوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ تلنگانہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس نے دعویٰ کیا کہ ماؤ نوازوں کی تلنگانہ سٹیٹ کمیٹی چھتیس گڑھ سے بھی کام کر رہی ہے۔

اسی طرح چھتیس گڑھ کی سرحد سے متصل مہاراشٹر کے گڈچرولی میں ماؤ نواز کمانڈر دیپک تلٹمبڈے بھی ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا، جس کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ بہت سے ماؤ نوازوں نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

لیکن ماؤ نواز دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’صرف گڈچرولی علاقے میں انتظامیہ نے 6000 مخبروں کو تعینات کیا ہے۔ ماؤ نوازوں کے خلاف پولیس کا کریک ڈاؤن بڑا دکھائی دے سکتا ہے، لیکن یہ سیاسی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ کارپوریٹ گھرانوں کی طرف سے کیا جاتا ہے اور یہ انہی کے کہنے پر ہو رہا ہے‘۔

ماؤ نوازوں نے خود سپردگی کرنے والے اپنے رہنماوں اور کیڈروں کو ’بزدل‘ کہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں