یوکرین میں جنگ لڑنے والی روسی فوج کتنی خطرناک ہے؟

ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) یوکرین کی فوج نے روس کے ویگنر گروپ کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا ہے۔ مشرقی یوکرین صوبے لوہانسک کے جلاوطن گورنرسرہ ہیدے نے بتایا ہے کہ صوبہ لوہانسک کے شہر کاڈیوکا میں ایک ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں اس گروپ کے فوجی مبینہ طور پر ملاقات کرتے تھے۔

ہیدے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں روس کو شدید نقصان پہنچا ہے اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے شدید زخمی فوجیوں میں سے پچاس فیصد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ بی بی سی آزادانہ طور پر ہوٹل میں ویگنر گروپ کی موجودگی کی تصدیق نہیں کر سکی۔

گزشتہ ہفتہ اور اتوار کو روس نے اوڈیسا کو ہدف بنا رکھا تھا۔ اسی دوران یوکرین نے روس کے زیر کنٹرول شہر میلیٹوپول پر بمباری جاری رکھی۔

مغربی ماہرین کے مطابق ویگنر روسی حکومت کی حمایت یافتہ جنگجوؤں کا ایک گروپ ہے جو روسی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔

اس نجی فوج کو ایک کمپنی کی شکل میں یوگونی پریگوزین فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ پریگوزین پوتن کے قریب لوگوں میں شامل ہیں۔

پریگوزین پر، جو کبھی ایک ریستوران کے مالک تھے ، جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام لگتے رہے ہیں۔ اس سے قبل ویگنر کریمیا، شام، لیبیا، مالی اور وسطی افریقی جمہوریہ میں تعینات رہ چکی ہے۔

ویگنر گروپ کیا ہے ؟

یوکرین پر حملے سے ٹھیک پہلے، اس گروپ کے جنگجو مشرقی یوکرین میں جھوٹے فلیگ آپریشن کر رہے تھے تاکہ روس کو حملے کا بہانہ مل سکے۔ کنگز کالج لندن میں تنازعات اور سلامتی کے شعبہ کی پروفیسر ٹریسی جرمن کہتی ہیں کہ اس علاقے میں ویگنر گروپ کی پہلی انٹری 2014 میں ہوئی تھی۔

وہ کہتی ہیں، ’اس گروپ کے تقریباً 1000 جنگجوؤں نے لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علاقے میں روسی حمایت یافتہ شدت پسندوں کی حمایت کی‘۔ یوکرین کے استغاثہ نے ویگنر گروپ کے تین جنگجوؤں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اپریل میں روسی افواج کے ساتھ مل کرجنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ ان جرائم میں قتل اور تشدد شامل ہیں۔ ان تینوں میں سے ایک کا تعلق بیلاروس اور ایک کا روس سے ہے۔جرمن انٹیلی جنس کو شبہ ہے کہ ویگنر کے جنگجو یوکرین کے شہر بوکا میں شہریوں کے قتل میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر سیموئل رمانی کا کہنا ہے کہ اب ویگنر گروپ کے جنگجو ڈونباس کے علاقے میں روسی فوجیوں کے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس گروپ نے لوہانسک اور سیوروڈونٹسک میں پوپوسنا جیسے شہروں پر قبضہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ آج کل یہ روسی فوج کی ایک غیر سرکاری یونٹ ہے اور جس کے فوجیوں کی ہلاکتوں کی اطلاع نہیں دی جاتی۔

اس سے پہلے جون میں یوکرین کی فوج نے لوہانسک کے پوپوسنا میں استاخانوف اور ویگنر گروپ کے دیگر اڈوں پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ویگنر گروپ کس نے بنایا؟

دی جیمس ٹائڈن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے سینئر فیلو ڈاکٹر سرگئی سُکھانکن بتاتے ہیں کہ ویگنر گروپ کو دمتری یوتکن نامی ایک شخص نے بنایا تھا ۔وہ 2013 تک روسی سپیشل فورسز کا حصہ تھے۔

سُکھانکن کا کہنا ہے کہ ’وگنر گروپ میں، انہوں نے 35 سے 50 سال کی عمر کے ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جو خاندان یا قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر چھوٹے شہروں سے تھے جن کے پاس ملازمت کے مواقع کم تھے۔ ان میں سے کچھ چیچنیا کے تنازعات میں اور کچھ روس-جارجیا جنگ میں شامل تھے۔ انہیں جنگ کا تجربہ تھا، لیکن وہ عام زندگی میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے تھے‘۔

ڈاکٹر سرگئی سُکھانکن کا کہنا ہے کہ انہیں روسی ملٹری انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کے قریب ایک مقام پر تقریباً تین ماہ تک تربیت دی گئی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس گروہ کے تار روسی فوج سے جڑے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس گروپ کے جنگجوؤں کو دنیا کے کئی شورش زدہ علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں روس چیچنیا اور افغانستان کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہتا تھا۔ پیوتن کو ڈر تھا کہ اگر غیر ملکی سرزمین پر فوجی کارروائیوں میں مزید روسی فوجی ہلاک ہوئے تو اس کا اثر اندرون ملک لوگوں پر پڑے گا اور ’لوگوں کی ناراضی بڑھ جائے گی‘۔

چیچنیا اور افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں ہزاروں روسی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ویگنر گروپ سرکاری طور پر فوج کا حصہ نہیں تھا، اس لیے اسے مہم میں شامل کرنے سے ہلاکتوں کی تعداد کو کم رکھنے میں مدد ملتی۔

سرگئی کہتے ہیں، ’ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روس ان کی ذمہ داری لینے سے انکار کر سکتا تھا۔ یعنی وہ کہہ سکتا تھا کہ اسے ان جنگجوؤں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک میں حساس مشنز پر فوج یا نیم فوجی دستے بھیجنا مشکل ہے۔

ویگنر گروپ کو کون کنٹرول کرتا ہے؟

کیریل میخائیلوف کیئو میں کانفلیکٹ انٹیلی جنس ٹیم کے ساتھ ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ ویگنر گروپ، جس کی قیادت یوٹکن کر رہی ہے، 2014 سے مشرقی یوکرین میں سرگرم ہے۔ وہ روس نواز علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا تھا۔

جون 2014 میں جب یوکرین کا ایک فوجی طیارہ گر کر تباہ ہوا تو اس کا الزام ویگنر گروپ پر آ گیا۔ میخائیلوف کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کی سیکیورٹی ایجنسی نے مشرقی یوکرین میں باغی کمانڈروں اور روسی اہلکاروں کے فون پر جو کچھ سنا، اس کے مطابق یہ ویگنر گروپ کا کام تھا۔ دمتری یوٹکن نے فون پر طیارے کو مار گرانے کی تصدیق کی تھی‘۔ اس وقت اس بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھیں کہ ویگنر گروپ پر کس کا کنٹرول ہے، حالانکہ اس کے بعد یہ گروپ ڈیبالتساوا کی مہم میں شامل ہو گیا۔ ڈیبالتساوا مشرقی یوکرین کے دو اہم علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کو جوڑنے والا ایک اہم مرکزہے۔ اسے جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ کیریل کہتے ہیں، ’یہ شہر یوکرین کے قبضے میں تھا۔ باغی روسی فوج کے تعاون سے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت وہاں روسی ٹینک استعمال کیے گئے تھے۔ حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ ان کا تعلق ویگنر گروپ کے تھے‘۔

میخائیلوف کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی صحافیوں کو معلوم ہوا ہے کہ دمتری اتکن مشرقی یوکرین کے ڈیبالتساوا اور دیگر حصوں کے بارے میں معلومات روسی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی جی آر یو کے ایک سینئر اہلکار کو دے رہے تھے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ویگنر گروپ اصل میں جی آر یو کے زیر کنٹرول تھا؟

ویگنر گروپ کو اور کہاں تعینات کیا گیا

کیریل کہتے ہیں، ’ہم نے کبھی اس بات کا ثبوت نہیں دیکھا کہ پیشہ ور روسی فوجیوں نے میدان جنگ کی فرنٹ لائن میں حصہ لیا، جیسا کہ یوکرین میں تھا۔ شام میں یہ کردار ویگنر گروپ نے ادا کیا تھا‘۔ ’یوکرین میں چھوٹے پیمانے پر مہم کے بعد، ویگنر گروپ کئی بٹالین پر مشتمل تھا۔ ان کے پاس جدید ہتھیار اور ہر بٹالین میں تقریباً 400 جنگجو تھے۔ وہ زمین پر روسی افواج کی جگہ لے رہے تھے۔ ویگنر گروپ شامی فوج کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ گروپ کے کچھ لوگوں کے مطابق اس گروپ کے ارکان سب سے پہلے نام نہاد شدت پسند گروپ اسلامک سٹیٹ کے کنٹرول سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں داخل ہوئے تھے۔ لیکن پھر اس کے نقصانات بھی تھے، ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’تحقیقاتی صحافیوں کی رپورٹس کے مطابق، اس وقت روسی وزیر دفاع ویگنر گروپ سے بہت ناراض تھے کیونکہ مرنے والوں کے رشتہ دار سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں معلومات شیئر کر رہے تھے اور یہ بات عام ہونے لگی کہ شام میں روسی فوجی لڑ رہے ہیں۔ ویگنر گروپ کی ہتھیاروں کی مدد بند ہو گئی‘۔ واشنگٹن پوسٹ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق، ویگنر گروپ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور شامی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا ۔ انہیں مشرق میں تیل اور گیس کے کنوؤں کو امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فورسز کے قبضے سے آزاد کرنا تھا۔ اور پھر ایک اہم موڑ آیا۔ فروری 2018 میں، شام کے کونوکو گیس پلانٹ کے قریب کرد فورسز کے ساتھ تعینات امریکی کمانڈروں نے ایک بڑی فورس کو قریب آتے دیکھا۔ ریڈیو پر اس نے لوگوں کو روسی زبان میں بات کرتے سنا۔ یہ ویگنر گروپ کے جنگجو اور شامی فوجی تھے۔ کیریل کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک خونی لڑائی تھی‘۔ امریکی فوجی روسی جنگجوؤں پر حملہ کر رہے تھے۔ اس سے روس اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا‘۔ پینٹاگون نے بتایا کہ روسی حکام نے انہیں یقین دلایا ہے کہ اس علاقے میں ان کی کوئی فوج نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دریائے فرات کے مغرب میں واقع علاقے اور تیل کے کنوئیں شامی حکومت اور ویگنر گروپ کے کنٹرول میں آگئے، جب کہ مشرقی علاقے امریکی فوج کے حمایت یافتہ گروپوں کے کنٹرول میں تھے۔ دیکھا گیا کہ تیل کے بہت سے کنویں ابھی تک کرد فورسز کے کنٹرول سے چھڑائے جا سکے تھے‘۔ یہیں سے صورتحال قدرے پیچیدہ ہوگئی۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس مہم کی اجازت کس نے دی، یا پھر ویگنر گروپ اپنے طور پر فیصلے کر رہا تھا۔لیکن اس کے بعد گروپ کی حکمت عملی ایک بار پھر بدل گئی۔ اب اس نے فوجی آپریشن کے بجائے اقتصادی شعبے میں اپنی جڑیں پھیلانی شروع کر دی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں