بھارتی سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ میں ریلوے کی زمین پر قائم مساجد، مندر اور گھروں کو گرانے سے روک دیا

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی سپریم کورٹ نے ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر قائم ایک بڑی آبادی کو ہٹانے کے ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے روک دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے جمعرات کو ہلدوانی شہر میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

بھارتی نشریاتی ادارے ‘این ڈی ٹی وی’ کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ ایک ہی رات میں 50 ہزار افراد کو گھروں سے محروم نہیں کر سکتے، یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔

جسٹس ایس کے کول اور جسٹس ایس اے اوکا پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

اعلیٰ عدالت نے ہلدوانی شہر میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کا قابلِ عمل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

بن بھولپورہ کی غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر کے 4523 مکانوں میں آباد 50 ہزار سے زائد افراد کے اس کڑاکے کی سردی میں بے گھر ہو جانے کا خطرہ تھا۔

علاقے کی 90 فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو کہ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع دو کلو میٹر کے علاقے میں تین بستیاں قائم ہیں جنہیں ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ نے طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔

مکینوں میں سے بیشتر کا دعویٰ ہے کہ ان کے گھر لیز ہیں۔ تجاوزات کی زد میں چار سرکاری اسکول، 11 نجی اسکول، بینک، 10 مساجد، چار مندر اور درجنوں دکانیں آتی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے قائم ہیں۔

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر کہا کہ ”یہ درست نہیں ہے کہ برسوں سے مقیم افراد کو بے گھر کرنے کے لیے پیرا ملٹری فورسز کو استعمال کیا جائے۔”

عدالت نے ریلوے کی زمین پر مزید کسی تعمیرات سے روکتے ہوئے ریاستی حکومت اور محکمۂ ریلوے سے جواب طلب کر لیا ہے جب کہ کیس کی مزید سماعت اگلے ماہ تک ملتوی کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ ان ہزاروں افراد کے لیے ریلیف ثابت ہوا ہے جو ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سراپا احتجاج تھے۔

مبینہ تجاوزات ہٹانے کے حکم کے بعد بڑی تعداد میں خواتین تین مقامات پر شاہین باغ کے طرز پر دھرنے پر بیٹھی ہوئی تھیں جہاں قرآن کی تلاوت کے علاوہ اجتماعی دعائیں بھی مانگی جا رہی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں۔ اگر ان کو اجاڑ دیا گیا تو وہ اس سرد موسم میں بچوں کو لے کر کہاں جائیں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو وہاں سے بے دخل کرنے کی وجہ سے ان کے بچوں کی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔

ریلوے لائن کے اطراف میں دو کلومیٹر سے زائد کے حصے پر 4000 سے زائد رہائشی مکانات کے علاوہ تین سرکاری اسکول، حکومت سے تسلیم شدہ 11 نجی اسکول، ایک بینک، دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک، 10 مساجد، چار مندر، 12 مدرسے اور ایک سرکاری اسپتال قائم ہیں۔ یہ تعمیرات عشروں کے درمیان ہوئی ہیں۔

مقامی رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ہاؤس ٹیکس، پانی کا بل، بجلی کا بل اور دیگر ٹیکس حکومت کو ادا کرتے آئے ہیں۔ ان کے آدھار کارڈ بھی بنے ہوئے ہیں۔ کئی افراد کی زمینوں کی، حکومت کے متعلقہ محکمے میں رجسٹری بھی ہوئی ہے۔ لوگ 60-70 برس سے وہاں رہ رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ متعدد مکانات آزادی سے پہلے کے تعمیر شدہ ہیں۔ ان کے مطابق ریلویز نے پہلے 29 ایکڑ زمین پر اپنا دعویٰ کیا تھا اور اب 78 ایکڑ پر دعویٰ کر رہا ہے۔

ہلدوانی سے کانگریس کے رکن اسمبلی سُمِت ہردئیش کی قیادت میں مقامی باشندوں نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ جب کہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بھی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

ایڈیشنل ڈویژنل ریلوے منیجر عزت نگر نے تنازع کے بارے میڈیا کو بتاتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نے 2013 میں ریلوے لائن کے اطراف میں ریت کی مبینہ غیر قانونی کھدائی کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ مقامی آبادی کے لوگ اس میں ملوث ہیں۔ لہٰذا ریلوے کو بھی فریق بنایا گیا۔

خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ پشکر دھامی نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کریں گے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتیں مقامی آبادی کی حمایت کر رہی ہیں۔ ریاست کے سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف جمعرات کو اپنی رہائش گاہ کے باہر ایک گھنٹے کا مون برت (خاموش برت) رکھا۔

اس کے بعد انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں وزیر اعلیٰ سے اپیل کی کہ وہ لوگوں کے مکانات کو ٹوٹنے سے بچائیں۔

ضلع ہلدوانی کے کانگریس کے سیکریٹری قاضی نظام الدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ وہاں 70 برس سے آباد ہیں۔ وہاں مسجد، مندر، اسکول، ہسپتال اور بینک ہیں۔ اس کے باوجود عدالت نے اس علاقے کو خالی کرانے کا حکم دے دیا۔ اس نے انسانی پہلو کو نظرانداز کر دیا۔

کانگریس کے مقامی رکن اسمبلی سُمِت ہردئیش کا کہنا ہے کہ وہاں 100 سال سے بھی زائد عرصے سے اسکول، مسجد، مندر، ہسپتال اور بینک وغیرہ ہیں۔ وزیر اعلیٰ غریبوں کی مدد نہیں کر رہے ہیں۔ اگر ان کو ہٹایا گیا تو یہ حکومت کی جانب سے بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔

مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدر آباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ریاستی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب وہاں تین سرکاری انٹرکالج ہیں تو پھر ناجائز قبضہ کیسے ہو گیا۔

بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی اور سماجوادی پارٹی نے بھی ریاستی حکومت پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے مقامی رہائشیوں کی حمایت کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں