پشاور: سربند تھانے پر دہشتگردوں کا حملہ، ڈی ایس پی سمیت 3 اہلکار ہلاک

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع تھانہ سربند پر جمعہ کی شب شدت پسندوں نے حملہ کر دیا جسے پولیس اہلکاروں نے کامیابی سے پسپا کیا تاہم بعدازاں اِن شدت پسندوں کے تعاقب میں جانے والے ٹیم میں شامل ایک ڈی ایس پی اور دو پولیس اہلکار مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1614152057467928577?t=QZWhdYjGRjGi0EaG8RqEBQ&s=19

ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی کے مطابق شدت پسندوں نے تھانہ سربند پر متعدد اطراف سے آدھی رات کو حملہ کیا جسے کامیابی سے پسپا کیا گیا مگر بعدازاں ان شدت پسندوں کے تعاقب میں جانے والی ٹیم میں شامل پولیس ڈی ایس پی بڈھ بیر سردار حسین اور دو پولیس اہلکار ارشاد اور جہانزیب ہلاک ہو گئے۔

ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق شدت پسندوں نے حملے میں دستی بم، سنائپر رائفل اور خود کار اسلحے کا استعمال کیا۔حملے کے بعد مسلح دہشتگرد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔

خیال رہے کہ سربند تھانہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے باڑہ کے قریب واقع ہے، حملے کے بعد پولیس کی اضافی نفری کو علاقے میں بھیج دیا گیا تھا، رات بھر سرچ آپریشن کے بعد آج صبح دوبارہ آپریشن شروع کیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ ’ملزمان کی گرفتاری کے لیے آج صبح سربند اور آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا‘، تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کردی گئی جس میں گورنر خیبر پختونخوا، انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری ، صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی اور اعلیٰ پولیس اور فوجی حکام نے بھی شرکت کی جس کے بعد ان کی نعشیں آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئیں۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا کہ پولیس نے بہادری سے دہشت گردوں کے حملے کو پسپا کیا، ڈی ایس پی سردار حسین کی گاڑی چوکی میں کھڑی کی، عقبی راستے سے داخل ہو رہے تھے، دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔

آئی جی پولیس کے مطابق شدت پسندوں کی جانب سے بنوں، لکی مروت اور ڈی آئی خان میں سنائپر ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا تھا، پشاور میں پہلی بار ہوا۔

انہوں نے کہا کہ تھرمل سائٹس، نائٹ وژن اور ڈرون ٹیکنالوجی کے لئے صوبائی حکومت نے خریداری کی منظوری دی ہے، سیف سٹی کے لئے جون سے قبل فیز ون شروع ہو جائے گا۔

معظم جاہ انصاری کے مطابق شہر کے تمام تھانوں میں اپنی مدد آپ کے تحت کیمرے لگائے گئے ہیں۔

دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ترجمان محمد خراسانی نے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ گذشتہ شب پشاور کے علاقے سربند تھانے کی دو چیک پوسٹوں پر تحریک طالبان پاکستان کے مجاہدین نے لیزر گنز سے حملہ کیا، حملے میں دو چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا اور دوسری چیک پوسٹ کے پاس ڈی ایس پی سردار حسین کو دو محافظوں کے ساتھ نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔

محمد خراسانی نے بتایا کہ اس حملے میں کل 4 اہلکار مارے گئے ہیں جبکہ 3 اہلکار زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ 2 کلاشنکوف،سات عدد میگزین اور 47 ہزار روپے غنیمت کیئے گئے۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں شدت پسندوں کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر حملوں کے واقعات میں واضح اضافہ نظر آیا ہے جس میں درجنوں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال یعنی 2022 میں خیبر پختونخوا میں تشدد کے واقعات میں 67 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ایک سال کے دوران 120 سے زائد پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔

ٹی ٹی پی کے پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں زیادہ اضافہ گذشتہ سال 28 نومبر کے بعد دیکھا گیا جب اس کالعدم تنظیم نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

گذشتہ سال کے دوران پرتشدد کارروائیوں کے زیادہ واقعات خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بشمول لکی مروت، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آئے۔

ان اضلاع میں پولیس پر ہونے والے حملوں میں شدت پسندوں کی جانب سے جدید ہتھیار استعمال کیے گئے جن کا تذکرہ خیبرپختونخوا کے اعلیٰ پولیس حکام اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی کیا ہے۔

مسلح شدت پسندوں کی حالیہ کارروائیوں میں صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے ہیں اور ان میں لکی مروت میں دو ماہ میں ڈیڑھ درجن سے زائد اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں ۔

لکی مروت میں حالات تو کشیدہ تھے لیکن گزشتہ سال ستمبر کے مہینے سے حملوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔

17 ستمبر کو پولیس کے ایک دفتر میں کام کرنے والے افسر حاجی خان کو ہلاک کیا گیا۔ 16 نومبر کو پولیس کی موبائل گاڑی پر شدت پسندوں کے حملے میں 6 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

اسی طرح 24 نومبر کو لکی مروت میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر کارروائی کی لیکن شدت پسندوں نے اُسی روز جوابی کارروائی کرتے ہوئے لکی مروت کے پولیس تھانے پر حملہ کر دیا۔

بڑھتے حملوں کے تناظر میں 25 نومبر کو سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کی جس میں ایک فوجی کیپٹن زخمی جبکہ دو اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر کو جنگ بندی ختم کرتے ہوئے جماعت کے ترجمان نے خاص طور پر لکی مروت اور دیگر علاقوں میں ان (شدت پسندوں) کے ٹھکانوں پر حملوں کو ایک بڑی وجہ قرار دیا۔

اسی طرح ضلع بنوں میں بھی 2022 کے دوران پولیس اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے اور ضلعی پولیس اور صحافیوں کے مطابق سال بھر میں 28 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور 22 اہلکاروں کو زخمی کیا گیا۔

دوسری جانب اسی دورانیے میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 93 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے دعوے کیے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں