بھارتی وزیرِ داخلہ کا دورۂ جموں: عسکریت پسندوں کیخلاف ‘360 ڈگری’ جال بچھانے کی ہدایت

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے جمعے کو جموں کے دورے کے دوران شدت پسندوں کے خلاف ‘360 ڈگری’ جال بچھانے کا اعلان کیا ہے جس پر بھارتی کشمیر کے بعض سیاست دانوں نے نکتہ چینی کی ہے۔

بھارتی وزیرِ داخلہ کا یہ بیان رواں ماہ کے آغاز میں بھارتی کشمیر کے ضلع راجوری میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں سات ہندوؤں کی ہلاکت اور 10 کے زخمی ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔

بھارتی حکام کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف 360 جال بچھانے سے مراد یہ ہے کہ جہاں بھی ان کی موجودگی کی اطلاع ملے، علاقے کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا جائے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امت شاہ نے ان واقعات کو بہت سنجیدہ لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے بھارتی کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں میں پورا ایک دن گزارا اور سیکیورٹی حکام سے ملاقاتوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے پر زور دیا۔

اس دوران راجوری سے موصولہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے یکم اور دو جنوری کو پیش آئے واقعات کے سلسلے میں 50 سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے۔

راجوری واقعات کی تحقیقات این آئی اے سے کرانے کا اعلان

امت شاہ نے راجوری کے اَپر ڈانگری گاؤں میں پیش آئے اس واقعے کی تحقیقات بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) سے کرانے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس کام میں جموں و کشمیر پولیس اس کی معاونت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ “اس گھناؤنے واقعے میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے جموں پولیس این آئی اے کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ این آئی اے دہشت گردی کے اُن تمام واقعات کی بھی تحقیقات کرے گی جو گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران جموں خطے میں پیش آئے ہیں۔”

میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو میں امت شاہ نے کہا کہ شرکا نے جموں و کشمیر میں تشدد کے خاتمے کے لیے ان کے بقول دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف 360 ڈگری جال بچھانے پر اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ “اُن تمام سیکیورٹی ایجنسیز نے جو جموں خطے میں حفاظتی صورتِ حال میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں آج کے اجلاس میں شرکت کی اور ہم سب تشدد اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے علاقے میں 360 ڈگری جال بچھانے پر متفق ہوئے ہیں۔”

دیہات میں دفاعی کمیٹیوں کے ارکان کو جدید اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ

امت شاہ پہلے ہی یہ اعلان کرچکے تھے کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے ایسے علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کو مستقل طور پر تعینات نہیں کیا جا سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں 1990 کی دہائی کے دوران عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے کے باعث تشکیل دی گئی ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کو نہ صرف دوبارہ فعال بنایا جارہا ہے بلکہ ان کے اراکین کو روایتی بندوقوں کے بجائے جدید اسلحہ بھی فراہم کیا جائے گا۔

دفاعی کمیٹیوں کے اراکین کو ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دینے کا کام بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کو سونپا گیا ہے اور اس میں بھارتی فوج اور مقامی پولیس بھی اہم کردار ادار کر رہی ہیں۔

اپوزیشن کا اعتراض

حزبِِ اختلاف کی بعض جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ ان کمیٹیوں کے ارکان کو اسلحہ دوبارہ فراہم کرنے سے علاقے میں نہ صر ف تشدد میں اضافہ ہوگا بلکہ ان کے بقول یہ آبادی کے ایک فرقے کو دوسرے فرقے کے خلاف کھڑا کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

سابق وزیرِِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کے مطابق عام شہریوں کو عسکریت پسندوں سے خطرے کے نام پر اسلحہ فراہم کرنے سے اُن کے بقول صرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ڈر، شک، بد گمانی اور نفرت پھیلانے کے ایجنڈے کو فائدہ پہنچے گا۔

انہوں نے گزشتہ دنوں سرینگر میں نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کے دوران یاد دلایا تھا کہ ماضی میں ان کمیٹیوں کے درجنوں ارکان نے ذاتی دشمنیاں نمٹانےاور فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے لیے اس فراہم کردہ اسلحے کا ناجائز استعمال کیا ہے۔

ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کے کئی ارکان پربعض مواقع پر مقامی مسلمان شہریوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جب کہ ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے ان کے ممبران پر دھونس اور دباؤ کا رویہ اختیار کرنے کی شکایات سامنے آئی تھیں۔

دوسری جانب عسکریت پسندوں نے ان کمیٹیوں کے اراکین کو ہدف بنانے کی کارروائیاں تیز کردی تھیں۔ ان کی طرف سے کیے گئے ٹارگٹڈ یا منصوبہ بند حملوں میں درجنوں اراکین ہلاک یا زخمی ہوگئے۔

تاہم امت شاہ کا کہنا تھا کہ ویلج ڈیفنس کمیٹیوں کو دوبارہ فعال بنانے کا فیصلہ گزشتہ برس اگست میں لیا گیا تھا اور اسے راجوری میں پیش آئے واقعات سے جوڑنے کی ضرورت نہیں۔

امت شاہ خراب موسم کے باعث راجوری نہ جا سکے، تاہم انہوں نے مارے جانے والے دو بھائیوں کی والدہ سروج بالا اور دیگر متاثرہ شہریوں کے اہلِخانہ سے فون پر بات چیت کی اور ملزمان کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔

اقلیتیں پہلے کے مقابلے میں محفوظ ہیں’

ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں اقلیتی فرقوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے علاقے کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جس کا انہیں اختیار حاصل ہے۔

انہوں نے کہا “سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے ہر منصوبے کا مناسب جواب دے رہی ہیں۔ اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو حالیہ برسوں کے مقابلے میں جموں و کشمیر میں اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے افرادکو ہدف بنانے کے واقعات میں کمی آگئی ہے۔ “

اپنا تبصرہ بھیجیں