ایران میں مظاہرے: ’تشدد سے چیخنے کی آوازیں گھنٹوں تک سنائی دیتی رہیں‘

تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران کی ایک سرکردہ خاتون کارکن نے بتایا ہے کہ کس طرح ایرانی جیل میں قیدیوں کو اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

سیپیدہ کولین قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے اور سنہ 2018 میں مظاہروں کی حمایت کرنے کے جرم میں قصوروار پائے جانے کے بعد پانچ سال کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

بدنام زمانہ ایون جیل سے لکھے گئے خط میں، جسے بی بی سی نے دیکھا، کولین نے تفتیش کرنے والوں کی جانب سے اپنے اور دیگر قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والے وحشیانہ سلوک کو بیان کیا۔

واضح رہے کہ قیدیوں سے لیے جانے والے ان جبری اعترافات کو سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کیا جاتا ہے۔

خط میں ملک میں پھیلتے ہوئے حکومت مخالف مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ ’یہ میری قید کا چوتھا سال ہے۔ میں آخر کار پورے ایران میں آزادی کی آہٹ کو سن سکتی ہوں۔‘

انھوں نے لکھا کہ عورت، زندگی اور آزادی کے نعرے کی بازگشت ایون جیل کی موٹی اور بلند دیواروں سے بھی سنی جا سکتی ہے۔ کولین اس وقت جیل میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

اپنے خط میں انھوں نے بتایا کہ کس طرح ایون کا ’ثقافتی‘ ونگ، جہاں وہ اپنے امتحانات دیتی ہیں، اسے ’تشدد اور تفتیش‘ کی عمارت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ وہاں حراست میں لیے گئے نوجوانوں سے کیسے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

بچوں اور نوعمروں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا

انھوں نے لکھا ’وہ کمرہ امتحان لڑکوں اور لڑکیوں سے بھرا ہوا ہے اور تشدد سہنے والوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔‘

کولین نے ایک منظر بیان کیا جو انھوں نے 28 دسمبر 2022 کو دیکھا تھا جب انھیں امتحان کے لیے ونگ میں لے جایا گیا تھا۔

’وہ بہت سرد رات تھی اور برفباری ہو رہی تھی، عمارت کے باہر کے دروازے کے قریب، ایک پتلی سرمئی ٹی شرٹ میں ملبوس ایک لڑکا بیٹھا تھا جس کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی اوراس سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی۔‘

’وہ کانپ رہا ہے اور التجا کر رہا ہے کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کسی کو نہیں مارا۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اعتراف جرم کرے، جب میں وہاں سے گزری تو میں نے چینختے ہوئے کہا کہ اعتراف نہ کرنا۔‘

ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی ’ہرنا‘ کے مطابق اب تک 69 بچوں سمیت کم از کم 519 مظاہرین ہلاک اور 19,300 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ہزاروں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔

ایون جیل: ایک تاریک کہانی جو 50 سال سے جاری ہے

یہ جیل ایرانی دارالحکومت تہران کے شمال میں پہاڑیوں میں واقع ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہ جیل 1972 میں بنائی گئی تھی اور اسے ملک کی ’بدنام ترین‘ جیلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

یہ بین الاقوامی سطح پر اس وقت مقبول ہوئی جب شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت کی آخری مدت (1979-1941) کے دوران ہزاروں سیاسی قیدیوں کو خوفناک حالات میں رکھا گیا، شاہ کی خفیہ پولیس کے زیر کنٹرول وہاں لوگوں پر تشدد کیا گیا اور پھانسیاں دی گئیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایون کی تاریخ کا ایک اور تاریک دور 1988 کے موسم گرما کے آخر میں آیا تھا جب ہزاروں سیاسی قیدیوں کو فاسٹ ٹریک مقدمات کے بعد پھانسی دے دی گئی۔

جیل کے ونگز عدالتی اتھارٹی، ایرانی پاسداران انقلاب اور وزارت انٹیلیجنس اور سکیورٹی کے کنٹرول میں ہیں۔

موت کی سزائیں

ایرانیوں نے پھانسی روکنے کے لیے جیل کے سامنے احتجاج کیا۔ گرفتار ہونے والوں میں سے کئی کو سزائے موت کا سامنا ہے اور چار مظاہرین کو اب تک ان کے اعترافات ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے کے بعد پھانسی دی جا چکی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے ٹرائل قانونی نمائندگی کے بغیر اور تشدد کے بعد کیے گئے تاہم حکام ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔

گذشتہ سال ستمبر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے آغاز کے بعد سے حراست میں لیے گئے مظاہرین کے درجنوں جبری اعترافات کو جاری کیا جا چکا ہے۔

اپنے خط میں، سپیدہ کولین نے 2018 میں اپنی ہی پوچھ گچھ اور جبری اعتراف کو یاد کیا، جب انھیں ایران کے صوبہ خوزستان میں ایک چینی فیکٹری میں مزدوروں کی ہڑتال اور احتجاج کی حمایت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

کولین بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے پوچھ گچھ کی جس کے بارے میں انھیں امید تھی کہ وہ اپنے مرد تفتیش کاروں کے مقابلے میں ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں گی اور ’کم از کم مجھ پر جنسی حملہ نہیں ہو گا‘ لیکن جلدی ہی ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔

پوچھ گچھ کرنے والی خاتون نے میز کو لات ماری اورچینختے ہوئے کہا ’تم نے کس کے ساتھ ہم بستری کی ہے۔‘

گذشتہ سال دسمبر میں 34 سال قید کی سزا کاٹنے والی انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی نے تفصیلی بیان دیا کہ حالیہ مظاہروں میں گرفتار خواتین کو جیل میں کس طرح جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کولین کا کہنا ہے کہ ان کے تفتیش کار نے ان کی آنکھوں کی پٹی کھول دی اور انھیں حکم دیا کہ کیمرے پر اپنے مبینہ جنسی تعلقات کو بیان کریں۔ کولین نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ گھنٹوں پوچھ گچھ کے بعد انھوں نے منت کی کہ انھیں باتھ روم لے جایا جائے۔ جب وہ خواتین کے بیت الخلا میں پہنچیں تو پوچھ گچھ کرنے والے نے انھیں اندر دھکیل کر دروازہ بند کر دیا۔ جس باتھ روم میں وہ بند تھیں وہ تفتیشی کمرے کے اندر تھا۔

’میں سن سکتی تھی کہ کس طرح ایک آدمی کو تشدد اور کوڑے مارے جا رہے تھے۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ ’ تشدد کی آوازیں گھنٹوں آتی رہیں یا شاید ایک دن، شاید اس سے بھی زیادہ، مجھے وقت کا اندازہ ہی نہیں رہا۔‘

کولین کا کہنا ہے کہ باتھ روم سے باہر آنے اور تین دن تک مسلسل پوچھ گچھ اور نیند سے محروم رہنے کے بعد انھیں ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک کیمرہ لگایا گیا تھا۔

وہ لکھتی ہیں کہ میں نے نیم بیہوشی کے عالم میں سکرپٹ کو اٹھایا اور کیمرے کے سامنے بیٹھ کر اسے پڑھا۔ ان اعترافات کی بنیاد پر انھیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

2019 میں، کولین قرچک جیل میں تھیں اور ٹی وی پر ایک اور قیدی کے جبری اعترافات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنے جیلر کو پہچانا۔

کولین نے اپنے خط کا اختتام احتجاج کو ’انقلاب‘ بتا کر کیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’آج جو آوازیں ہم سنتے ہیں وہ تفتیشی کمروں کی آوازوں سے زیادہ بلند ہیں۔ یہ ایک انقلاب کی آواز ہے، عورت کی حقیقی آواز، زندگی اور آزادی کی آواز ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں