پشاور: سپریم کورٹ بار کے سابق صدر لطیف آفریدی قاتلانہ حملے میں ہلاک

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے) پاکستان کے معروف وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کو پشاور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق حملہ آور نے انھیں پشاور ہائی کورٹ بار کی عمارت میں نشانہ بنایا۔ پولیس حکام کے مطابق حملہ آور کو جائے واردات سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس حملے کے بعد لطیف آفریدی کو مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق لطیف آفریدی کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔

ایس ایس پی آپریشن پشاور پولیس نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ’لطیف آفریدی پر فائرنگ کرنے والے ملزم کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور اس سے تفتیش جاری ہے۔‘

’ملزم نے ان کو بار روم میں زخمی کیا جس کے بعد ان کو ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور ان کی موت ہو گئی۔‘

خیال رہے کہ سنہ 2020 میں پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایڈووکیٹ عبدالطیف آفریدی کو اپنا صدر منتخب کیا تھا۔ وہ عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار تھے لیکن ایک قدآور شخصیت ہونے کے باعث انھیں حذبِ مخالف کے وکلا کی تائید بھی حاصل تھی۔

’خیبر پختونخوا لاقانونیت کا شکار ہے‘

پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں سینئر وکیل لطیف آفریدی کے قتل پر جہاں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مشترکہ طور پر اظہار افسوس کیا گیا وہیں اس معاملے کو سکیورٹی لیپس کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ملک بھر میں عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے قتل کی واردات کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ بار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے اندر اہم ترین شخصیت کا قتل سیکیورٹی فول پروف نہ ہونے کا ثبوت ہے۔

کچھ ایسا ہی بیان وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے جنھوں نے کہا کہ ’خیبرپختونخوا لاقانونیت کا شکار ہے، امن وامان کی صورتحال الارمنگ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت سیاسی جوڑ توڑ کے بجائے امن وامان پر توجہ دیتی تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ پشاور ہائی کورٹ بار کے اندر یہ واقعہ ہونا امن وامان کی سنگینی کا ثبوت ہے، بہیمانہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کےمطابق سخت ترین سزا دی جائے۔‘

لطیف آفریدی کون تھے؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی ان افراد میں شامل تھے، جو 70 کی دہائی کے بعد ملک میں جتنے بھی مارشل لا نافذ کیے گئے اور پھر ملک میں حزب مخالف کی جتنی تحاریک چلیں تو وہ ہر بار جیل گئے۔

ان کی آواز اور دبنگ انداز زمانہ طالب علمی سے تھا۔ انھیں محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابات میں حمایت کرنے کی پاداش میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

پہلے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں انھیں طالبعلم رہنما کی حیثیت سے پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ بطور سیاسی کارکن سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں بھی پانچ مرتبہ جیل جا چکے ہیں۔

پھر سنہ 2007 میں انھوں نے ملک میں پرویز مشرف کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کی شدید مخالفت کی تھی۔

تب وہ جیل تو نہیں گئے لیکن چھ اکتوبر سنہ 2007 کو ہی خیبرپختونخوا اسمبلی کے گیٹ پر جب وہ پُرامن احتجاج کر رہے تھے تو بکتر بند گاڑی نے انھیں روند ڈالا تھا جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔

اس کے بعد سے وہ چھڑی کے سہارے عدالتوں میں پیش ہوتے تھے۔

لطیف آفریدی: ایک پرفیکشنسٹ وکیل جو ’جونیئرز کے لیے سایہ دار درخت کی طرح تھے‘

طارق افغان نے لطیف آفریدی کے ساتھ کام کیا ہے۔ بی بی سی اردو نامہ نگار عزیز اللہ خان سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ لطیف آفریدی کی شخصیت ایک ایسے بزرگ جیسی تھی جن کی مثال ایک سایہ دار درخت کی شکل میں دی جا سکتی ہے۔

’جونیئر وکیل ہوں یا سیاسی ورکر، ان کے سائے تلے سب نشو نما پاتے تھے۔‘

’وہ جونیئر وکلا پر غصہ بھی کرتے تھے اور ان کو کتابیں پڑھنے، اپنے لباس پر توجہ دینے کی تلقین کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک وکیل کو بہترین لباس میں رہنا چاہیے۔‘

طارق افغان نے کہا کہ ’لطیف آفریدی ایک عام سے علاقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے وکیل کمیونٹی میں اپنا مقام بنایا کیوں کہ وہ پرفیکشنسٹ تھے۔‘

طارق افغان نے لطیف آفریدی کی زندگی کے ایک اور پہلو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’غریبوں اور ناداروں کے لیے لطیف لالہ نے جتنے مفت کیسز لیے، پاکستان کی تاریخ میں کسی وکیل نے نہیں کیے ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لطیف آفریدی طلبا کے لیے سکالر شپ بھی دیتے تھے۔ بہت سے طالب علم جن کے پاس فیس نہیں ہوتی تھی، وہ لالہ کے پاس آتے تھے اور لالہ ان کی فیس جمع کرا دیتے تھے۔‘

’ذاتی زندگی میں انتہائی ملنسار اور شفقت برتنے والے تھے جن کے ساتھ بیٹھ کر محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ شخص ہم سے تیس چالیس سال بڑا اور اتنا سینیئر وکیل ہے۔‘

’ایک نڈر شخصیت تھی جو ایسی بات کر سکتے تھے جو کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔‘

لطیف آفریدی کا سیاسی سفر

لطیف آفریدی سنہ 1968 میں گریجویشن کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے تھے۔ تین دہائیوں تک ہائی کورٹ میں وکالت کرنے کے بعد وہ سنہ 2006 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔

وہ چھ بار پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔ وہ پاکستان بار کونسل کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبر بھی رہے۔

سابقہ قبائلی علاقے ضلع خیبر کی وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ لطیف آفریدی کا سیاسی تعلق عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے تھا۔

سنہ 1979 میں غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے پھر اس جماعت کا عوامی نیشنل پارٹی میں انضمام ہوا۔ لطیف آفریدی رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔

کچھ عرصہ کے لیے وہ نیشنل عوامی پارٹی اجمل خٹک سے بھی وابستہ ہوئے لیکن پھر اے این پی کا حصہ بن گئے۔

عبدالطیف آفریدی نے ہزاروں مزدوروں، سیاسی کارکنوں اور شہریوں کے مقدمات بغیر فیس کے لڑے۔

ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف صوبہ خیبر پختونخوا میں جتنے بھی مقدمات درج کیے گئے ان میں سے زیادہ تر مقدمات کی پیروی لطیف آفریدی کرتے رہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز کے خلاف درخواستوں کی پیروی بھی سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے نو منتخب صدر کرتے رہے ہیں۔

لطیف آفریدی پر حملہ کرنے والا بھی وکیل

بار روم میں موجود وکلا نے ایک شخص کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ اس شخص پر الزام ہے اس نے لطیف آفریدی پر فائرنگ کی تھی۔

پولیس ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق حراست میں لیے گئے شخص عدنان آفریدی ایڈووکیٹ ہے جو کہ ایک مقتول وکیل سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ کے بیٹے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو ذاتی دشمنی کے بنیاد پر قتل کیا گیا البتہ اس حوالے سے حکام کی جانب سے کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔

لطیف آفریدی ایڈووکیٹ پر مقتول وکیل سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جسٹس آفتاب آفریدی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ اور جسٹس آفتاب آفریدی آپس میں کزن تھے۔ لطیف آفریدی پر حملہ کرنے والے عدنان آفریدی ایڈووکیٹ جسٹس آفتاب آفریدی کے بھانجے بھی ہیں۔

واضح رہے کہ سمیع اللہ آفریدی ایڈووکیٹ کو چند برس قبل قتل کیا گیا تھا۔ ان کے قتل کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی البتہ ان کے اہلِ خانہ نے الزام لگایا تھا کہ اس قتل میں لطیف آفریدی ایڈووکیٹ ملوث ہیں۔

جسٹس آفتاب آفریدی کے قتل کا مقدمہ صوابی میں درج تھا حالیہ ہفتوں میں ان کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ بھی سامنے آیا تھا جس میں لطیف آفریدی بری ہو گئے تھے۔

خاندانی دشمنی؟

جج آفتاب آفریدی کے چھوٹے بیٹے طاہر آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 1974 سے پہلے آفتاب آفریدی اور لطیف آفریدی کا ایک ہی خاندان تھا جن کی مشترکہ طور پر ایک تیسرے فریق سے دشمنی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس دشمنی کے دوران ان کے خاندان کے چند افراد کی ہلاکتیں ہوئیں جس کے بعد ان میں چند اختلافات پیدا ہوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مقدمے میں ان کے ماموں سمیع اللہ آفریدی وکالت کر رہے تھے۔ شکیل آفریدی کے کیس میں لطیف آفریدی بھی وکیل تھے لیکن پھر اچانک سمیع اللہ آفریدی کو مبینہ طور پر دھمکی آمیز فون کالز موصول ہونے لگیں جس پر سمیع اللہ آفریدی ایک خلیجی ملک چلے گئے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ واپسی پر ان کے ماموں سمیع اللہ آفریدی شکیل آفریدی کے کیس سے دستبرادار ہو گئے تھے لیکن مارچ 2015 میں انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر کچھ علم نہیں تھا کہ یہ قتل کس نے کیا کیونکہ بظاہر اشارے شدت پسندوں اور دیگر تنظیموں کی طرف کیے جا رہے تھے۔ اس کے بعد ہم نے سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو درخواست دی جس میں اس قتل کی انکوائری کے لیے کہا گیا تھا۔ اس انکوائری میں پولیس سے جو معلومات ملیں ان کے مطابق یہ قتل کسی شدت پسند گروہ کا نہیں تھا بلکہ اس میں پرائیویٹ افراد ملوث ہو سکتے ہیں۔‘

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد لطیف آفریدی کے ایک رشتہ دار وزیر آفریدی کو دسمبر 2019 میں پشاور میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کا باقاعدہ الزام سمیع اللہ آفریدی کے بیٹے عدنان آفریدی پر عائد کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں نامزد ہونے سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ’میں گاؤں میں اپنے بچوں کے ساتھ شجرکاری کے لیے گیا تھا ہم واپس آئے تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔‘

’بظاہر ایسا کوئی حساس نوعیت کا مقدمہ نہیں جس کی وہ (آفتاب آفریدی) سماعت کر رہے ہوں یا بظاہر ایسا کوئی فیصلہ نہیں جو انھوں نے حال ہی میں سُنایا ہو۔ لیکن جس انداز میں ان کو اور ان کے اہلخانہ کو قتل کیا گیا، اس میں اب دیکھا جائے گا کہ اس کی تفتیش سے کیا سامنے آتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ذاتی دشمنی کی بات کی جائے تو پٹھانوں میں یہ روایت نہیں کہ گھر کے بچوں اور خواتین کو اس طرح قتل کیا جائے۔ ایسا حملہ کہ سارے اہلِ خانہ کو ہی ختم کر دو۔۔۔ دیکھا جائے گا کہ تفتیش کس طرف جائے گی۔ ہمارے ہاں اس قسم کے کیسز کی تفتیش ہی مکمل نہیں ہوتی اور سب درمیان میں ہی ادھر ادھر ہو جاتا ہے۔‘

اس سے قبل بی بی سی سے گفتگو میں ان کے بیٹے نے اپنے والد کے قتل کے حوالے کہا تھا کہ ابھی فی الحال وہ اس معاملے پر کوئی بات نہیں کر سکتے تاہم بعد میں ایف آئی آر میں ان کی جانب سے لطیف اللہ آفریدی اور ان کے بیٹے سمیت چند اور افراد کا نام لیا گیا اور کہا گیا کہ یہ خاندانی دشمنی کی بنیاد پر کیا گیا قتل ہے۔

وکلا تنظیموں کو عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے لطیف آفریدی کے قتل کے خلاف منگل کو ملک بھر میں عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

ایک بیان میں ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ وکلا کے قتل پر مذمتی بیانات کے بجائے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل نے بھی منگل کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ایک بیان میں بار کونسل نے کہا ہے کہ حکومت کی عدالتوں اور وکلا کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی پر تشویش ہے۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر کاربند تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں