خالصتان کا تنازعہ: آسٹریلیا میں مخالف بھارتی گروپوں میں جھڑپ

میلبورن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) اتوار کے روز میلبورن میں بھارتی نژاد لوگوں کے درمیان پرجھڑپیں ہوئیں، جس میں لوگوں نے ایک دوسرے کو ڈنڈوں سے پیٹا اور تلواریں لہرائیں۔ علیحدہ ریاست خالصتان کے مطالبے کے حق میں ریفرنڈم میں تقریباً 60000 سکھوں نے ووٹ ڈالے۔

میلبورن کی سڑکوں پر اتوار کے روز ایک طرف سکھ علامات والے زرد رنگ کے پرچم لیے لوگ “ہندوستان مردہ باد” کے نعرے لگا رہے تھے تو دوسری طرف بھارت کا قومی پرچم ہاتھوں میں اٹھائے دوسرا گروپ “خالصتان مردہ باد” کے نعرے لگا تا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اچانک دونوں گروپ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔

دونوں گروپوں میں شامل افراد نے اپنے اپنے جھنڈوں کو ڈنڈا بنالیا اور جو بھی سامنے آیا اسے پیٹنا شروع کر دیا۔ پولیس نے بیچ بچاو کرنے کی کوشش کی لیکن تشدد پر آمادہ ہجوم نے اسے بھی دھکیل دیا، جس میں کچھ پولیس والوں کو معمولی چوٹیں بھی آئی ہیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں بھارتی قومی پرچم اٹھانے والے گروپ کے لوگوں نے میدان چھوڑ دیا۔

تشدد کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بھارت میں ممنوعہ تنظیم “سکھ فار جسٹس” کی اپیل پر لوگ خالصتان کے لیے مبینہ ریفرینڈم میں شرکت کے لیے میلبرن کے فیڈریشن اسکوائر پر جمع ہوئے تھے۔

ریفرنڈم شروع کرنے سے پہلے سکھ مذہبی رسم “ارداس” ادا کی گئی۔ صبح نو بجے سے قبل ہی پولنگ سینٹر پر طویل قطاریں لگ چکی تھیں۔ بہت سے افراد دوسرے شہروں سے بھی آئے تھے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والے ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “یہ ہمارے اپنے ملک کے لیے ووٹنگ ہے، اس لیے اس میں حصہ لینا بہت ضروری تھا۔”

آسٹریلیا میں رہنے والے خالصتان کے سرگرم حامی امرجیت سنگھ خالصتانی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی دن ہے۔ ان کا کہنا تھا، “آج یہاں میلبورن میں تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔ آنے والی نسلیں اس کا ذکر کریں گی کہ میلبرن میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے خالصتان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔”

سکھ فار جسٹس کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 18 برس سے زائد عمر کے تقریباً 60000 افراد نے خالصتان کے حق میں ریفرنڈم میں ووٹ ڈالے۔ جب کہ وقت ختم ہو جانے کی وجہ سے تقریباً 15000 افراد ووٹ ڈالنے سے محروم رہ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ مقررہ وقت ختم ہونے سے تقریباً دس منٹ قبل تو ووٹ دینے کے لیے بھگدڑ جیسی صورت پیدا ہو گئی تھی۔

یہ خدشہ پہلے سے ہی تھا

کچھ ہی دیر میں فیڈریشن اسکوائر کا ماحول بدل گیا اور خالصتان حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ جب بھارتی نژاد افراد ایک دوسرے کو لاٹھیوں سے پیٹ رہے تھے تو وہاں موجود غیر ملکی بڑی حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔

کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں تلواریں بھی دیکھی گئیں۔ پرتشدد جھڑپوں کے بعد پولیس نے چند افراد کو حراست میں بھی لیا۔

خالصتان ریفرنڈم کا اعلان ہونے کے بعد سے ہی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ فریقین کے درمیان تشدد ہو سکتا ہے۔ جنوری کے اوائل میں جب شہر میں جگہ جگہ خالصتان حامی پوسٹر لگائے گئے تھے اسی وقت سے سوشل میڈیا پر کشیدگی کی جھلک ملنے لگی تھی۔ کچھ ہندو تنظیموں نے مقامی بلدیاتی اداروں سے اپیل کی تھی کہ ان پوسٹروں کو ہٹایا جائے کیونکہ یہ بھارت مخالف ہیں۔

اس کے بعد ان پوسٹروں پر سیاہی پھیر دی گئی تھی۔ کئی جگہ قابل اعتراضات تصویریں بھی بنادی گئی تھیں۔ اس واقعے کے خلاف ہندو مندروں پر بھارت مخالف نعرے لکھ دیے گئے۔ دونوں ہی واقعات کے بعد آسٹریلیا میں رہنے والے بھارتی کمیونٹی میں کشیدگی پھیل گئی۔

اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہندو اور سکھ تنظیموں نے بیانات جاری کیے اور مندروں پر حملے کی مذمت کی۔ سکھ ایسوسی ایشن فار آسٹریلیا کے صدر ڈاکٹر البیل سنگھ کانگ اور ہندو کاؤنسل آف آسٹریلیا کے نائب صدر سریندر جین کی طرف سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں مندروں پر حملوں کی مذمت کی گئی تھی۔

بھارتی کمیونٹی فکرمند

آسٹریلیا میں ہندو اور سکھ کمیونٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے بھارتی کمیونٹی خاصی فکرمند ہے۔ سڈنی میں رہنے والے بلجندر سنگھ کہتے ہیں، “ہم سب لوگ یہاں مل جل کر امن سکون کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ بھارت کے داخلی مسائل کی وجہ سے یہاں کشیدگی پیدا ہو۔ ان مسائل کا حل امریکہ، کینیڈا یا آسٹریلیا میں نہیں، بھارت میں ہی ملے گا۔”

ڈاکٹر کانگ کا کہنا تھا، “ہم چاہتے ہیں کہ ان حملوں کے قصورواروں کو گرفتار کیا جائے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ کسی بھی عبادت گاہ پر حملوں کو ہم برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اس واقعے کی سخت ترین مذمت کرتے ہیں۔”

بھارتی ہائی کمیشن کا بیان

آسٹریلیا میں بھارتی ہائی کمیشن نے بھی ان واقعات کی مذمت کی ہے اور آسٹریلوی حکومت سے درخواست کی کہ اس کی سرزمین کو بھارت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

ہائی کمیشن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، “ایک ممنوعہ تنظیم سکھ فار جسٹس کے ذریعہ منعقدہ مبینہ ریفرنڈم پر ہم فکرمند ہیں۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ آسٹریلیائی حکومت بھارتی نژاد لوگوں اور ان کی املاک کی حفاظت کرے اور اپنی سرزمین کو بھارت کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔”

خالصتان تحریک میں شدت

آسٹریلیا سے قبل کینیڈا اور امریکہ کے شہروں میں بھی خالصتان کی حمایت میں مبینہ ریفرنڈم ہو چکے ہیں۔

حالانکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس ریفرنڈم کے نتائج کب سامنے آئیں گے لیکن جہاں بھی سکھ کمیونٹی بڑی تعداد میں ہیں وہاں کافی لوگوں نے اس ریفرنڈم میں حصہ لیا ہے۔

کینیڈا میں بھی ہندو اور سکھ کمیونٹی کے درمیان اسی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوچکی ہے اور وہاں بھی کئی مندروں پر بھارت مخالف نعرے لکھے گئے، جس کے بعد نئی دہلی حکومت نے کینیڈا سے شکایت بھی کی تھی۔ حتی کہ ان واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخیا ں پیدا ہو گئی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں