کراچی پولیس آفس پر حملے میں ملوث ’ٹی ٹی پی کا اہم کمانڈر‘ ساتھی سمیت مارا گیا، 2 دہشت گرد گرفتار

کراچی (ڈیلی اردو) کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) سندھ نے کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر 17 فروری کو ہونے والے دہشت گرد حملے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1635181129513971714?t=agmNjC5M8a1nxuXfX_2dww&s=19

بیان کے مطابق ہلاک ہونے والے دوسرے دہشت گرد کی شناخت جاری ہے، آپریشن کے دوران 2 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جب کہ علاقے میں سی ٹی ڈی کا سرچ آپریشن جاری ہے۔

بعدازاں وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 17 فروری 2023 کو شام 7 بج کر 15 منٹ پر تین مسلح حملہ آوروں نے کے پی او پر حملہ کیا تھا جہاں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بروقت کارروائی کی اور مقابلے میں دو ’خودکش بمباروں‘ کو ہلاک کر دیا جبکہ تیسرے نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا اور دہشت گردی کے اس واقعے میں 5 افراد ہلاک جبکہ 20 کے قریب زخمی ہوئے تھے جس کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

وزیر اطلاعات کے ہمراہ سی ٹی ڈی کے سینئر افسران عمران منہاس، ذوالفقار لاڑک، طارق نواز، راجہ عمر خطاب اور مظہر مشوانی بھی موجود تھے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ پیر کی صبح تقریباً 3 بجے منگھوپیر کے علاقے مائی گھڑی میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار مشتبہ افراد پہنچے تو وہاں پہلے سے تعینات سی ٹی ڈی ٹیم نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا، ملزمان نے رکنے کی بجائے فائرنگ کا سہارا لیا اور اس کے نتیجے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو ملزمان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ دو نے ہتھیار ڈال دیے جن ان کے قبضے سے ایک خودکش جیکٹ برآمد ہونے پر بی ڈی ایس ٹیم نے اسے ناکارہ بنا دیا۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے سی ٹی ڈی، وفاقی حساس اداروں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے ایک مشترکہ خصوصی ٹیم قائم کی ہے جس نے کامیابی سے اس نیٹ ورک کو کراچی اور حب کے درمیان سرحدی علاقے میں ٹریس کیا جہاں وہ چھپے ہوئے تھے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ اس نیٹورک نے کے پی او پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو مدد، منصوبہ بندی اور جاسوسی میں تعاون کیا تھا۔

شرجیل میمن نے کہا کہ مارے گئے ملزمان کی شناخت آریاد اللہ عرف حسن اور وحید اللہ عرف خالد عرف حذیفہ کے ناموں سے ہوئی ہے، دونوں مارے گئے حملہ آور کے پی او حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے، تاہم گرفتار ملزمان کی شناخت عبدالعزیز عرف محمد علی اور مہران عرف مہربان کے نام سے ہوئی ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کراچی کے علاقے احسن آباد کے رہائشی تھے جبکہ گرفتار دہشت گرد بالترتیب گلشن حدید اور شاہ لطیف ٹاؤن کے رہائشی تھے جو واقعے کے بعد بلوچستان فرار ہوگئے تھے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ گرفتار ملزمان نے بتایا کہ وہ اور ان کے ہلاک ہونے والے ساتھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے منسلک ہیں اور کہا کہ کے پی او پر حملے میں استعمال ہونے والی کار حب کے ایک کار شوروم سے کے پی او حملے کے مارے گئے خودکش بمبار کفایت اللہ اور گرفتار دہشت گرد عبدالعزیز نے 10 لاکھ روپے میں خریدی تھی جس کی رقم دونوں مارے گئے دہشت گردوں نے فراہم کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کے پی او پر خودکش حملے سے ایک ہفتہ قبل تینوں خودکش بمبار بسوں کے ذریعے کراچی آئے تھے اور احسن آباد میں مارے گئے دہشت گرد وحید کے گھر ٹھہرے تھے، جبکہ خودکش جیکٹس، اسلحہ اور دیگر اسلحہ کے پی کے کے علاقے ٹانک سے ٹرک کے ذریعے کراچی لایا گیا تھا۔

وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ مارے گئے اور پکڑے گئے دہشت گرد ایک اور دہشت گردی کی کارروائی کرنے کے لیے کراچی آ رہے تھے کیونکہ انہوں نے کے پی او پر حملے کے دوران اپنے ’مقاصد‘ حاصل نہیں کیے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ سی ٹی ڈی اور حساس اداروں نے مشترکہ طور پر سندھ بالخصوص کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام بڑے واقعات کا سراغ لگایا ہے حالانکہ بعض اوقات صوبائی حکومت کی منفی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کے پی او حملے کے دوران پولیس کی ممکنہ غفلت کا پتہ لگانے کے لیے کمیٹی قائم کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں سے کراچی آنے والی ہزاروں ٹرکوں اور بسوں کو چیک کرنا ممکن نہیں تھا، یہ خاص طور پر خیبرپختونخوا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسی گاڑیوں اور وہاں سے آنے والے حملہ آوروں پر نظر رکھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کے داخلی اور خارجی راستوں پر اسکینرز لگانے کا منصوبہ بنایا جارہا تھا لیکن تباہ کن سیلاب کی وجہ سے کراچی میں سیف سٹی پراجکٹ کے لیے مختص بجٹ کا نصف حصہ متاثرین کی بحالی پر لگا دیا گیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں سی ٹی ڈی کے افسر راجہ عمر خطاب نے کہا کہ کے پی او پر مارے گئے تین حملہ آوروں میں کوئی بلوچ عسکریت پسند نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے دو کی شناخت خیبرپختونخوا کے رہائشیوں کے طور پر ہوئی ہے جبکہ تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ اس کا کوڈ نام ’یاسر‘ تھا لیکن اس کی اصل شناخت ڈی این اے سے ہی ہو سکتی تھی۔

سی ٹی ڈی افسر نے کہا کہ شاید وہ افغان باشندہ تھا، مزید کہا کہ گرفتار عسکریت پسندوں کی تفتیش کے دوران کے پی او کے حملہ آوروں کے ساتھ اب تک بلوچ علیحدگی پسندوں کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔

قبل ازیں سی ٹی ڈی اور دیگر حساس اداروں کو اتوار کی شب خفیہ اطلاع ملی تھی کہ اس نیٹ ورک کے ارکان حب کی کچی سڑکوں سے کراچی میں داخل ہوں گے۔

واضح رہے کہ 17 فروری کو تین دہشت گردوں نے شاہراہ فیصل پر قائم کراچی پولیس آفس پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت 5 جاں بحق ہوئے تھے جب کہ 17 زخمی ہوگئے تھے۔

حملے کے فوراً بعد پولیس، آرمی اسپیشل سروس گروپ، پاکستان رینجرز سندھ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین گھنٹوں تک دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جس کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے تینوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔

دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے رکن بی ڈی ایس انسپکٹر عابد فاروق نے ڈان کو بتایا تھا کہ تینوں دہشت گردوں نے خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں۔

اہلکار کے مطابق حملہ آوروں میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ 2 دیگر دہشت گردوں کو سیکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کیا، فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دہشت گردوں نے بھی خودکش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں جن میں سے ہر جیکٹ کا وزن تقریباً 7 سے 8 کلوگرام تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں