نیٹو ہے کیا اور اس کا قیام کیوں عمل میں آیا؟

برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) یوکرین کے خلاف جاری روس کی جنگ نے اس اتحاد کو ایک بار پھر سے مزید اہم بنا دیا ہے۔ لیکن اس ٹرانس اٹلانٹک سکیورٹی اتحاد کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

نیٹو در اصل ‘نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن’ کا مخفف ہے، جسے سن 1949 میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کے قیام کا اولین اور اہم مقصد یورپ میں سوویت یونین کے پھیلاؤ کے خطرے کو روکنا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے یورپ میں قوم پرستانہ رجحانات کی بحالی کو روکنے اور براعظم میں سیاسی انضمام کو فروغ دینے کے لیے بھی اسے ایک آلے کے طور پر دیکھا۔

تاہم حقیقت میں اس کا قیام پہلی بار سن 1947 میں اس وقت ہوا تھا، جب برطانیہ اور فرانس نے جنگ کے نتیجے میں جرمن حملے کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحاد کے طور پر ڈنکر ک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس سیاسی اور فوجی اتحاد کے اصل بانی 12 ارکان: امریکہ، برطانیہ، بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے اور پرتگال ہیں۔

اجتماعی سیکورٹی

اس وقت اس تنظیم کے 31 ارکان ہیں اور یہ اتحاد تمام ارکان کی اجتماعی سیکورٹی کے طور پر کام کرتا ہے، جس کا مقصد اگر کسی رکن ملک کو کسی بیرونی ملک سے خطرہ لاحق ہو، تو اسے فوجی اور سیاسی ذرائع سے باہمی دفاع فراہم کرنا ہے۔

اجتماعی سکیورٹی کی بنیاد چارٹر کے آرٹیکل پانچ پر مشتمل ہے، جس میں اس کا تفصیلی ذکر ہے۔

اس میں کہا گیا ہے، ”تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکہ میں ان میں سے کسی ایک پر یا ایک سے زیادہ کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے، تو اسے سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایسا مسلح حملہ ہوتا ہے، تو ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر یا تمام فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے تسلیم شدہ آرٹیکل 51 کی طرف سے خود کے دفاع کے اپنے حق کا استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔”

“جس پر بھی حملہ ہو، اس کے دفاع کے لیے ادارہ انفرادی طور پر یا دیگر فریقوں کے ساتھ مل کر فوری طور پر، مسلح فورس کے ذریعے یا جو بھی کارروائی ضروری سمجھی جائے، شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی کو بحال اور برقرار رکھنے کے لیے تمام فریقوں کی مدد کرے گا۔”

سن 2001 میں 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ نے اس اتحاد کے چارٹر میں اس آرٹیکل پانچ کا اضافہ کیا اور تبھی سے یہ نافذ ہوا۔

سوویت روس کے خلاف طاقت کا مظاہرہ

سوویت یونین نے بھی سن 1955 میں سات دیگر مشرقی یورپی کمیونسٹ ریاستوں کے ساتھ اپنا ایک الگ فوجی اتحاد بنا کر نیٹو کو جواب دیا، جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔

لیکن دیوار برلن کے گرنے اور سن 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کی وجہ سے یورپ میں سرد جنگ کے بعد ایک نئے سکیورٹی آرڈر کی راہ ہموار ہو گئی۔

سوویت یونین سے آزاد ہونے کے بعد وارسا معاہدے کے بھی کئی سابقہ ممالک نیٹو کے رکن بن گئے۔ ویزگراڈ گروپ کے ارکان ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے سن 1999 میں نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔

پانچ برس بعد 2004 میں نیٹو نے بلغاریہ، ایسٹونیا، لاتوئیا، لتھوانیا، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووینیا پر مشتمل نام نہاد ولنیئس گروپ کو بھی تسلیم کر لیا۔ البانیہ اور کروشیا نے سن 2009 میں شمولیت اختیار کی جب کہ مونٹی نیگرو اور شمالی مقدونیہ نے سن 2020 میں ایسا کیا۔

فن لینڈ رواں برس اپریل میں نیٹو میں شامل ہوا، جو سب سے نیا رکن ہے۔ اس کے نورڈک پڑوسی ملک سویڈن نے بھی بلاک میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی ہے، تاہم اس کے الحاق کی کوشش کو فی الحال ترکی اور ہنگری نے روک رکھا ہے۔

تین ممالک: بوسنیا ہرزیگوینا، جارجیا اور یوکرین کو فی الحال اس فہرست میں رکھا گیا ہے، جو اس میں شامل ہونے کے ”خواہش مند” ہیں۔

نیٹو کی اوپن ڈور پالیسی

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے پس منظر میں نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے کییف کی خواہش ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ تاہم روس کے لیے سابق سوویت یونین کی جمہوریہ ہونے کی وجہ سے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا تصور ایک سرخ لائن ہے۔

نیٹو کی نام نہاد اوپن ڈور پالیسی، جیسا کہ معاہدے کی دفعہ 10 میں بیان کیا گیا ہے، کسی بھی اس یورپی ملک کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دیتی ہے جو ”شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی میں اضافہ اور تعاون کر سکتا ہو۔”۔

نیٹو کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ ”نیٹو کی رکنیت کے خواہشمند ممالک سے بھی کچھ سیاسی، اقتصادی اور عسکری اہداف کو پورا کرنے کی توقع کی جاتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اتحاد کی سلامتی کے ساتھ ہی اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی بن سکیں گے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں