افغان طالبان نے ’مسجد کے میدان‘ میں مبینہ مجرم کو سرعام گولی مار کر ہلاک کردیا

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) افغان طالبان کی جانب سے سزائے موت کے ایک مجرم کو ایک مسجد کے میدان میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اگست2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد یہ دوسری سرعام موت کی سزا ہے۔

صوبائی انفارمیشن افسران کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”مجرم کو صوبہ لغمان کے مرکزی سلطان غازی بابا قصبے میں سرعام موت کی سزا دی گئی تاکہ اسے دیکھ کر دوسرے بھی سبق حاصل کر سکیں۔‘‘

اگرچہ سن 1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت میں سرعام پھانسیاں عام تھیں لیکن اب اقتدار میں واپسی کے بعد یہ دوسری سرعام موت کی سزا تھی۔ اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں صوبہ فرح میں ایک مجرم کو سرعام پھانسی دی گئی تھی۔

دوسری جانب چوری، زنا اور شراب نوشی سمیت دیگر جرائم کے لیے باقاعدہ سرعام کوڑے مارے جانے کی سزائیں اب بھی تواتر سے دی جا رہی ہیں۔

حکام نے مجرم کا نام ‘اجمل ولد نسیم‘ بتایا اور مزید کہا کہ اس نے پانچ افراد کو قتل کیا تھا۔ صوبائی محکمہ اطلاعات و ثقافت کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً دو ہزار افراد نے موت کی سزا کو دیکھا۔

طالبان حکام کے مطابق، جس وقت سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، اس وقت مجرم کے رشتہ دار بھی وہاں موجود تھے اور یہ کہ مجرم کو سزا شرعی قوانین کے عین مطابق دی گئی ہے۔

افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے گزشتہ سال ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ شریعت کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں، بشمول قصاص سزا کے، جو ”آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کے مترادف ہے۔

منگل کو سزائے موت کے ایک عینی شاہد کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ” مقتول کے خاندان نے مجرم کو معاف نہیں کیا تو اس کے بعد ہی اسے قصاص کے تحت سزائے موت دی گئی ہے۔‘‘ اس عینی شاہد کا مزید کہنا تھا، ”اسے گولی ماری گئی اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو اسے چھ گولیاں ماری گئیں۔ بعدازاں اسے ایمبولینس میں لے جایا گیا۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسی سزاوں کی سخت مخالف کرتی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح سرعام سزائیں دے کر طالبان لوگوں میں اپنا خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں