قاری بریال: امریکی فوج کو انتہائی مطلوب القاعدہ کے رہنما افغانستان میں گورنرز تعینات

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں القاعدہ کے کچھ ایسے رہنما اس وقت طالبان حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن کے نام دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے واشنگٹن کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے۔

وائس آف امریکہ افغان سروس کے روشن نور زئی کی رپورٹ کے مطابق 15 سال سے زیادہ عرصے سے، قاری بریال افغانستان میں واشنگٹن کی طالبان اور القاعدہ کے رہنماؤں کی “انتہائی مطلوب” خصوصی فہرست میں شامل ہیں، جن پر ملک بھر میں بم دھماکے اور خودکش حملے کرنے کا الزام ہے۔

امریکی فوج کی رپورٹس کے مطابق بریال اور ان کے ما تحت کام کرنے والے عسکریت پسند، کابل اور اس کے آس پاس کے صوبوں میں “آئی ای ڈی یعنی دھماکہ خیز ڈیوائس کی تیاری، خودکش اہلکاروں کی تیاری ،مجموعی طور پر حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد میں ملوث تھے۔”

نومبر 2021 میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے دو ماہ بعد، طالبان نے قاری بریال کو صوبہ کابل کا گورنر مقرر کیا۔ مارچ 2022 میں وہ کابل کے شمال مشرق میں کاپیسا کے صوبائی گورنر بن گئے۔

بریال ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی وابستگی اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے ساتھ تھی۔بریال کے علاوہ نورستان کے گورنر حافظ محمد آغا حکیم اور طالبان کے انٹیلی جینس کے ڈپٹی ڈائریکٹر تجمیر جواد کے نام بھی رپورٹ میں شامل ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم IAEنے جون کے اوائل میں ایک رپورٹ میں کہا ہےکہ “طالبان کی سرپرستی کے ساتھ القاعدہ کے ارکان کو طالبان کے سیکیورٹی اور انتظامی ڈھانچے میں تقرریاں اور مشاورتی کردار ملے ہیں۔”

اس رپورٹ میں طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات کو “مضبوط اور علامتی” قرار دیاگیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ایک اندازے کے مطابق القاعدہ کے 400 جنگجو افغانستان میں موجود تھے اور ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ دہشت گرد گروپ اپنی”آپریشنل صلاحیت کی از سر نو تعمیر کر رہا ہے۔”

طالبان کا ردِعمل

طالبان نے اس رپورٹ کو “متعصبانہ اور حقیقت سے دور” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گروپ “اپنے وعدوں پرزور دیتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے خطے، پڑوسی ملکوں اور دنیا کے ممالک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔وہ کسی کو بھی اپنی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔”

ٹوئٹر پر ایک اور پوسٹ میں ذبیح اللہ مجاہد نے IEA کے ترجمان کی رپورٹ کو پراپیگنڈے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتی۔

طالبان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ نے بھی افغانستان میں کسی بھی دہشت گرد گروپ کی موجودگی کو مسترد کیا ہے۔

انہوں نے مئی میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ایک تقریب میں کہا تھا “افغانستان میں کوئی دہشت گرد گروپ نہیں ہے۔ وہ ملک میں کام نہیں کر سکتے اور ہم انہیں افغانستان میں آپریٹ نہیں کرنے دیتے۔”

طالبان کے دعوؤں پر امریکہ کے شکوک و شبہات

تاہم امریکی حکام طویل عرصے سے طالبان کے ان دعوؤں پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے خود کو القاعدہ سے دور کر لیا ہے۔جب گزشتہ جولائی میں ایک امریکی ڈرون سے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری ہلاک ہوئے تو وہ اس وقت دارالحکومت کابل کے ایک مرکزی علاقے میں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے۔

امریکہ نے کہا کہ ان کی وہاں موجودگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان نے 2020 کے دوحہ معاہدے کو توڑ دیا ہے جس پر امریکہ اور طالبان نے دستخط کیے تھے۔ القاعدہ کے رہنما کی میزبانی کر کے اور انہیں پناہ دے کر، طالبان نے افغان سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کو دوسرے ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہ دینے کے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تقرریوں پر ماہرین کی رائے

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ایک سینئر فیلو بل روگیو نے وی او اے کو بتایا کہ “امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے والے بریال سمیت القاعدہ اور طالبان کے رہنماؤں کی تقرریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان عالمی برادری کے تاثرات کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ طالبان القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں “ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں” اور یہ کہ گروپ کے بیانات پر “بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔”

لیکن کچھ ماہرین یہ نہیں سمجھتے کہ افغانستان غیر ملکی جنگجوؤں کے لیے پرکشش بنتا جا رہا ہے۔

برسوں تک افغانستان کی کوریج کرنے والے صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسف زئی نے وی او اے کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ اب افغانستان میں القاعدہ کے ارکان بنیادی طور پر عرب ہیں، جن میں سے صرف چند ہی افغان طالبان کے ارکان ہیں جنہوں نے ‘ضرورت کے تحت ‘ شمولیت اختیار کی تھی۔

انہوں نے کہا “ان کے القاعدہ کے ساتھ رابطے تھے کیوں کہ وہ وہاں مقیم تھے، اور وہ القاعدہ کی حفاظت کر رہے تھے جس کے لیے وہ انہیں ادائیگی کرتے تھے۔”

دیگر علاقائی ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان اور امریکی قیادت والی افواج کے درمیان خطے میں طویل فوجی کشمکش نے علاقائی ملیشیا گروہوں کے درمیان ڈھیلا ڈھالا اتحاد تشکیل دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں