گوانتاناموبے میں قیدیوں کو غیر انسانی سلوک کا سامنا ہے، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوام متحدہ کے حقوق کے ماہرین کی ایک ٹیم نےاپنے گوانتانامو بےکے دورے کے بعد کہا ہے کہ مسلسل نگرانی، شدید تنہائی اور خاندانوں تک محدود رسائی کے ساتھ، گوانتانامو کے آخری 30 قیدیوں کے ساتھ سلوک “ظالمانہ اور غیر انسانی ہے۔”

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فیونوالا نی اولین نے کہا کہ گوانتانامو بے، کیوبا میں امریکی نیول بیس پر جیل میں بدسلوکی، قیدیوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

فیونوالا نی اولین نے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد نے، جنہیں 2001 میں امریکہ پر القاعدہ کے حملے کے بعد مشتبہ افراد کے طور پر پکڑے جانے کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک اس قید خانے میں رکھا گیا تھا، منظم جبر اور طبی اور ذہنی صحت کی ناقص دیکھ بھال اور بدسلوکیوں کا سامنا کیا ہے۔

انہوں نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو خاندانوں سے ذاتی طور پر ملاقات، یا کال کرنے کی مناسب رسائی حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، “مجموعی طور پر یہ تمام طریقہ کار میرے اندازے کے مطابق، بین الاقوامی قانون کے تحت ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک کے زمرے میں آتا ہے۔”

انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ نی اولین نے فروری میں ایک ٹیم کے ساتھ گوانتانامو کا سفر کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے حقوق کے ماہرین کو تقریبأ دو دہائیوں کی کوشش کے بعد وہاں جانے کی اجازت ملی تھی۔

انہوں نے امریکی فوجی جیل کے اپنے پہلے دورے کے بارے میں پیر کو ایک پریس کانفرنس میں بات کی۔

اپنی ٹیم کی رپورٹ کا تعارف کراتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کو اب بھی قیدیوں سے متعلق حقوق کی سب سے زیادہ عیاں خلاف ورزیوں کا ازالہ کرنا ہے:جس میں 2000 کی دہائی کے اوائل میں ان کی خفیہ گرفتاری اور گوانتاناموبے کو منتقلی، اور بہت سوں کا 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کے پہلے سال میں شدید تشدد کو برداشت کرنا شامل ہے۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ نے کہا کہ قیدیوں کے طے شدہ فوجی ٹرائلز برسوں سے اس سوال پر تعطل کا شکار ہیں کہ اگر ان پر تشدد کیا گیا ہے تو کیا انہیں انصاف مل سکتا ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے، صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے اس کھلے پن کا خیرمقدم کیا کہ اس نے ان کی ٹیم کوا دورہ کرنے اور قیدیوں کے ساتھ سلوک کا جائزہ لینے کی اجازت دی، جن کی تعداد کبھی 800 کے قریب تھی۔

“کچھ ہی ملک اس قسم کی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔نی اولین نے کہا کہ بہر حال اس جیل کو بند کرنا، جو کہ امریکی نظام انصاف سے باہر ہے، “بدستور ایک ترجیح ہے۔”

اس رپورٹ پر نی اولین کو لکھے گئے خط میں جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکی مندوب مشیل ٹیلر نے کہا کہ امریکہ ان کے جائزے کو مکمل طور پر قبول نہیں کرتا۔

ٹیلر نے لکھا، “ہم قیدیوں کے لیے محفوظ اور انسانیت پر مبنی سلوک فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں