سائفر معاملہ: وفاقی حکومت کا عمران خان کیخلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ امریکی سائفر سے متعلق ہونے والی تحقیقات اور سابق بیورو کریٹ اعظم خان کے بیان کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی لیگل ڈیپارٹمنٹ کی رائے کے بعد کی جائے گی۔

بدھ کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور یہ مقدمہ خصوصی عدالت میں بھیجا جائے گا۔

وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر سے متعلق اپنا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچایا تھا۔

دوسری جانب اعظم خان کے بیان کے بارے میں عمران خان نے کہا ہے کہ اعظم خان ایک ایماندار آدمی ہیں اور جب تک وہ ان کے منہ سے یہ باتیں نہیں سن لیتے وہ اس بیان پر یقین نہیں کریں گے۔

رانا ثنا اللہ نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والوں نے خود ہی اعتراف جرم کر لیا اور عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا اعترافی بیان اس آڈیو کی تصدیق کرتا ہے جس میں عمران خان امریکی سائفر سے متعلق اپنی کابینہ کے چند ارکان سے گفتگو کر رہے ہیں۔

وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں عمران خان کی گرفتاری ضروری ہے کیونکہ ان سے وہ سائفر بھی برآمد کرنا ہے، جس کے بارے میں سابق وزیراعظم نے اعظم خان کو بتایا تھا کہ وہ ان سے گم گیا۔

جب رانا ثنا اللہ سے پوچھا گیا کہ اعظم خان تو لاپتہ تھے اور ان کی گمشدگی سے متعلق درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھی تو وہ اچانک کیسے منظر عام پر آ گئے تو وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اعظم خان اپنے دوست کے گھر پر تھے اور اس تمام صورتحال پر انھوں نے کافی غور کیا جس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ ایسے کرداروں کو سامنے لایا جائے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اعظم خان اس سازش کا حصہ نہیں تھے لیکن عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری ہونے کی وجہ سے وہ اس کا حصہ بنے۔ انھوں نے کہا کہ اعظم خان کو اس صورتحال میں خود کو اس حیثیت سے الگ کر لینا چاہیے تھا لیکن شاید وہ ایسا نہ کر سکے۔

اعظم خان کے بیان میں کیا ہے؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر سے متعلق اپنا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا ہے۔ اپنے بیان میں اعظم خان نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچایا تھا۔

انھوں نے امریکی سائفر کو ایک سوچی سمجھی قرار دیا اور کہا کہ سابق وزیر اعظم نے کس طرح سائفر کے معاملے میں پوری کابینہ کو ملوث کیا اور پھر تمام لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ سائفر کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اپنے بیان میں اعظم خان نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے اس سیکرٹ مراسلے کو ذاتی مفاد کے لیے اور بعد ازاں اس کو ملکی اداروں کے خلاف استعمال کیا اور ملکی اداروں کے خلاف عوام کی رائے قائم کروانے کی کوشش کی۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ آٹھ مارچ سنہ 2022 کو سیکرٹری خارجہ نے اعظم خان کو سائفر کے بارے میں بتایا جبکہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم کو سائفر کے متعلق پہلے ہی بتا چکے تھے۔

انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے سائفر کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے استمعال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی اور سائفر واپس مانگنے پر عمران خان نے اس کے گم ہونے سے متعلق بتایا۔

اعظم خان کے مطابق عمران خان نے ان کے سامنے سائفر کو عوام کے سامنے بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی بات کی۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ برس 28 مارچ کو بنی گالا میٹنگ اور پھر 30 مارچ کو کابینہ کی خصوصی میٹنگ میں سائفر کا معاملہ زیربحث آیا۔ میٹنگز میں سیکرٹری خارجہ نے شرکا کو سائفر کے مندرجات سے متعلق بتایا۔

اعظم خان نے کہا کہ جب تک وہ پرنسپل سیکریٹری تھے، وزیراعظم عمران خان کا کھویا ہوا سائفر واپس نہیں کیا گیا کیونکہ بقول عمران خان وہ ان اسے کھو گیا اور بار بار کہنے کے باوجود واپس نہیں کیا۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ وہ اسے عوام کے سامنے پیش کریں گے اور اس بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کریں گے کہ مقامی شراکت داروں کی ملی بھگت سے غیر ملکی سازش رچائی جا رہی ہے۔

بیان کے مطابق اس پر محمد اعظم خان نے مشورہ دیا کہ سائفر ایک خفیہ کوڈڈ دستاویز ہے اور اس کے مواد کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔

اعظم خان کے مطابق انھوں نے کہا کہ گزشتہ برس 31 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جہاں مذکورہ بالا عمل کو دوبارہ دہرایا گیا اور قومی سلامتی ڈویژن کی طرف سے اس پر غور کیا گیا۔

پی ٹی آئی کا ردعمل

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں سماعت کے دوران جب عمران خان سے ان کے پرنسپل سیکرٹری کے اعترافی بیان کے بارے میں سوال کیا گیا تو سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اعظم خان ایک ایماندار آدمی ہیں اور جب تک وہ ان کے منہ سے یہ باتیں نہیں سن لیتے وہ اس بیان پر یقین نہیں کرتے۔

دوسری جانب اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے ردعمل دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے لاپتہ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے منسوب غیر مصدقہ بیان تضادات کا مجموعہ ہیں۔

پی ٹی آئی کے بیان کے مطابق اعظم خان کے بیان کی حقیقت تو ابھی طے ہونا باقی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ 17 جون سے لاپتہ ہیں، اعظم خان کی گمشدگی کا باضابطہ مقدمہ درج ہے اور وفاقی پولیس انھیں تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہے۔‘

’ایک گمشدہ شخص کی جانب سے مجسٹریٹ کے روبرو 164 کے بیان کا ریکارڈ کروایا جانا ماہرینِ قانون کی نگاہ میں ناقابلِ تصّور ہے۔‘

بیان کے مطابق اعظم خان کا بیان اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہے، جس سے زیرِحراست افراد ’استحکام‘ یا ’پارلیمنٹیرینز‘ کی صفوں میں سے برآمد یا پریس کلبز سے بازیاب ہوتے ہیں۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی کے دو مختلف ادوار میں ہونے والے اجلاسوں میں پوری سول و عسکری قیادت نے سائفر کو ’پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت قرار دیا۔‘

’چیئرمین تحریک انصاف نے پہلے بطور وزیراعظم اور بعدازاں ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی اور عوامی جماعت کے سربراہ کے طور پر سائفر کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔‘

بیان کے مطابق وفاقی حکومت اعظم خان کے حوالے سے عدالت اور قوم کو حقیقت سے آگاہ کرے اور بتایا جائے کہ اعظم خان کس کی تحویل میں ہیں اور انھیں کس مقدمے میں گرفتار کر کے ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

’اعظم خان کا بیان عمران خان کیلئے مشکلات پیدا کرے گا‘

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل افتخار شیروانی کا کہنا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت جو بھی ملزم یا گواہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اپنی مرضی سے بیان دینے والے کسی بھی شخص کا جب بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے تو اس میں مجسٹریٹ کو پروٹوکول کا خیال رکھنا پڑتا ہے جس کا ذکر ہائیکورٹ کے ضابطہ کار میں موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس مقدمے میں کسی بھی ملزم یا وعدہ معاف گواہ کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے تو جب اس مقدمے کی کارروائی متعقلہ عدالت میں چلائی جاتی ہے تو وہ مجسٹریٹ جس نے بیان ریکارڈ کیا ہوتا ہے، وہ عدالت میں پیش ہو کر بیان دیتا ہے کہ فلاں شخص نے انھیں اپنی مرضی سے بیان ریکارڈ کروایا۔

افتخار شیروانی کا کہنا تھا کہ اگر مقدمے کی عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات سامنے آئے کہ بیان ریکارڈ کروانے والے شخص کا بیان ان کی مرضی یا قواعد سے ہٹ کر ریکارڈ کیا گیا تو عدالت اس بیان کو مسترد کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سائفر سے متعلق عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا بیان ان کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں