بھارت ریاست منی پور میں مسیحی قبائلی خواتین کا اجتماعی ریپ اور برہنہ پریڈ کرایا گیا

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ منی پور کے واقعے نے ملک کو شرمسار کر دیا ہے۔ اقلیتی مسیحی قبائلیوں اور اکثریتی ہندو میتئی فرقے کے درمیان ڈھائی ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری تشدد پر انہوں نے پہلی مرتبہ بیان دیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ منی پور کے واقعے نے ملک کو شرمسار کردیا ہے اور قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔

میانمار کی سرحد سے ملحق شمال مشرقی بھارت کی اس ریاست میں دو خواتین کی مبینہ اجتماعی ریپ اور انہیں برہنہ پریڈ کرانے کے واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مودی حکومت پر دباو بڑھ گیا ہے۔

خواتین کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں برہنہ پریڈ کرانے کا واقعہ حالانکہ چار مئی کو پیش آیا تھا لیکن اب تک صرف ایک شخص کو گرفتار کیا جا سکا ہے۔

منی پور میں اقلیتی مسیحی قبائلیوں اور اکثریتی ہندو میتئی فرقے کے درمیان تشدد کا سلسلہ گوکہ تین مئی سے جاری ہے جس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں لیکن وزیر اعظم مودی نے اس پر اب تک خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اپوزیشن جماعتیں ایک عرصے سے وزیر اعظم مودی سے اس پر بیان دینے کا مطالبہ کر رہی تھیں لیکن انہوں نے 77 دنوں کے بعد آج پہلی مرتبہ اس پر بیان دیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ آج جمعرات 20 جولائی کو پارلیمان کا اجلاس شروع ہوا ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کو منی پور سمیت متعدد معاملات پر گھیرنے کا اعلان کیا ہے اس لیے وزیر اعظم کو مجبوراً بیان دینا پڑا۔

وزیر اعظم مودی نے کیا کہا؟

وزیر اعظم مودی نے پارلیمان کے باہر نامہ نگاروں سے رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا، “میں پورے ملک کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اسے کبھی بھلایا نہیں جائے گا۔”

وزیر اعظم مودی نے کہا، “میں جمہوریت کے اس مندر کے باہر کھڑا ہو کر کہہ رہا ہوں کہ میرا دل غم اور غصے سے پھٹا جارہا ہے۔ منی پور کا واقعہ کسی بھی مہذب ملک کے لیے شرمناک ہے۔ پورا ملک اس واقعے پر شرمسار ہے۔”

مودی تاہم اس موقع پر کانگریس کو بھی نشانہ بنانے سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے کانگریس کی حکومت والی ریاستوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، “میں تمام وزرائے اعلیٰ سے اپنی اپنی ریاستوں میں بالخصوص ہماری ماؤں اور بہنوں کے حوالے سے امن و قانون کو سخت کرنے کی اپیل کرتا ہوں، خواہ وہ راجستھان ہو یا چھتیس گڑھ یا منی پور۔ ہمیں بھارت کے ہر کونے میں سیاست سے اوپر اٹھ کر ہولناک جرائم کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔”

بھارتی سپریم کورٹ کی وارننگ

اپوزیشن پارٹیوں نے وزیراعظم کے بیان کے باوجود منی پور پر پارلیمان میں بحث کرانے کا مطالبہ دہرایا۔ تقریباً 15 اراکین نے نوٹس دیا ہے کہ پارلیمان میں دیگر امور کو موخر کرکے اس اہم ترین مسئلے پر بحث کرائی جائے۔

اس دوران بھارتی سپریم کورٹ نے بھی خواتین کو برہنہ پریڈ کرانے کے واقعے کو”انتہائی تشویش ناک اور شرمناک” قرار دیا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وی آئی چندر چوڑ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ واقعہ “آئینی ناکامی کی واضح مثال” ہے۔ انہوں نے حکومت سے خواتین کی تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کو یقینی بنانے کی اپیل کرتے ہوئے وارننگ دی کہ “اگر حکومت کوئی قدم نہیں اٹھاتی ہے تو عدالت از خود اقدام کرے گی۔” انہوں نے کہا کہ عدالت میں 28 جولائی کو اس معاملے پر غور کیا جائے گا۔

خواتین کے برہنہ پریڈ کا واقعہ کیا ہے؟

بھارت میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو کوکی قبائلی خواتین کو برہنہ حالت میں کئی نوجوان مرد دھکے مارتے ہوئے لے جارہے ہیں۔ ایک قبائلی تنظیم نے ان خواتین کے ساتھ اجتماعی ریپ کا بھی الزام لگایا ہے۔

منی پور پولیس نے اس ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ خواتین گزشتہ 4 مئی کو منی پور کے تھوبل ضلعے میں جنسی زیادتی کا شکار ہوئی تھیں۔ پولیس نے کہا کہ، “اس معاملے میں اغوا، اجتماعی ریپ اور قتل کے معاملے میں نامعلوم افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔ معاملے کی جانچ شروع کردی گئی ہے۔ پولیس قصورواروں کو گرفتار کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔”

بھارتی میڈیا کے مطابق ایک متاثرہ خاتون نے بتایا کہ 4 مئی کو میتی قبائل کے افراد گاوں کو جلا رہے تھے تو”میں اپنے اہل خانہ اور دیگر افراد کے ہمراہ بھاگنے کی تیاری کررہی تھی کہ حملہ آوروں نے ہمیں پکڑ لیا۔ اس ہجوم نے ہمارے پڑوسی اور اس کے بیٹے کو مار ڈالا اور خواتین پر حملہ کرکے انہیں کپڑے اتارنے پر مجبور کردیا۔”

پولیس میں درج رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک خاتون کا اجتماعی ریپ کیا گیا اور جب اس کے 19سالہ بھائی نے بچانے کی کوشش کی تو اسے وہیں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق تین خواتین کو برہنہ حالت میں ہجوم کے ساتھ چلنے پر مجبور کیا گیا۔

سخت عوامی ردعمل

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے علاوہ بالی ووڈ کے کئی اداکاروں نے بھی اس ہولناک واقعے کی مذمت کی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں حکمراں بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ پارلیمان کے آج سے شروع ہونے والے اجلاس میں بھی یہ معاملہ چھایا رہے گا۔

خواتین کو برہنہ پریڈ کرانے کے واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مودی حکومت پر دباو بڑھ گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی حکومت پر مکمل طورپر ناکام رہنے کا الزام لگاتے ہوئے ریاستی وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ سے فوراً استعفی دینے اور ریاست میں صدارتی حکومت نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹوئٹر کو ویڈیو ہٹانے کا حکم

مرکزی حکومت نے ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو حکم دیا ہے کہ وہ خواتین کے برہنہ پریڈ کی ویڈیو کو اپنے اپنے پلیٹ فارموں سے فوراً ہٹادیں، کیونکہ یہ معاملہ زیر تفتیش ہے۔

ذرائع کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس کی وزارت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے ویڈیو نہیں ہٹائے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ بھارت میں تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے لیے بھارتی قوانین کو ماننا لازمی ہے۔

ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم حکومت کی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو گئی ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ حکم بھارت میں میڈیا کی آزادی اور حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے مودی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے مبینہ اقدامات کا حصہ ہے۔

خیال رہے کہ رپورٹرز ودآوٹ بارڈر(آر ایس ایف) کی جانب سے رواں برس جاری کردہ پریس فریڈم انڈکس میں بھارت 11 درجہ نیچے گر کر 180 ملکوں کی فہرست میں 161ویں مقام پر آگیا ہے۔

منی پور میں تشدد کیوں؟

شمال مشرقی ریاست منی پور میں مسیحی مذہب ماننے والے اقلیتی قبائلیوں اورہندو اکثریتی میئتی کے درمیان گذشتہ 3 مئی کو شروع ہونے والے پرتشدد واقعات نے بھیانک صورت اختیار کرلی ہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے اہم اقدامات کے دعووں کے باوجود زمینی حقیقت اس کے برخلاف دکھائی دیتی ہے۔ہلاکتوں کے واقعات اب بھی جاری ہیں۔

تشدد کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ہائی کورٹ نے میتئی ہندووں کو بھی کوکی قبائلیوں کی طرح خصوصی ریزرویشن دینے کا حکم دیا۔ قبائلیوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے وہ مزید پسماندگی کا شکار ہو جائیں گے۔

یورپی یونین کی پارلیمان نے بھی منی پور کی صورت حال پر گزشتہ ہفتے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کی حکومت والی ریاست منی پور میں تشدد کے نتیجے میں کم از کم 120 افراد ہلاک اور 50 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں جب کہ اس دوران 1700 مکانات اور 250 سے زائد گرجا گھروں کو آگ لگادی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں