نیوزی لینڈ میں خواتین کے ورلڈ کپ کے موقع پر فائرنگ، 3 افراد ہلاک، 6 زخمی

آکلینڈ (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/ڈی پی اے/اے ایف پی) خواتین کے فٹبال ورلڈ کپ کے آغاز سے محض چند گھنٹے قبل آکلینڈ میں ایک بندوق بردار نے دو افراد کو ہلاک اور چھ دیگر کو زخمی کر دیا۔ وزیر اعظم کرس ہپکنز کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والے میچز منصوبے کے مطابق جاری رہیں گے۔

نیوزی لینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ 20 جولائی جمعرات کی صبح آکلینڈ میں ایک تعمیراتی جگہ پر فائرنگ کے واقعے میں 24 سالہ نوجوان بندوق بردار سمیت کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے۔

جمعرات کو ہی نیوزی لینڈ میں خواتین کے فٹبال ورلڈ کپ کا آغاز ہونے والا ہے، جس کے محض چند گھنٹے قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ تاہم ملک کے وزیر اعظم کرس ہپکنز کا کہنا ہے کہ ملک کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور نیوزی لینڈ میں ویمنز ورلڈ کپ کے میچز منصوبے کے مطابق جاری رہیں گے۔

ہپکنز نے کہا، ”اس فائرنگ کا تعلق کسی بھی سیاسی یا نظریاتی تحریک سے نہیں ہے اور اسی وجہ سے قومی سلامتی کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آکلینڈ کے مقامی رہائشیوں اور دنیا بھر کے دیگر شائقین کو یقین دلایا جا سکتا ہے کہ پولیس نے خطرے کو بے اثر کر دیا ہے اور وہ اس واقعے کے سلسلے میں کسی اور شخص کو تلاش بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔”

فائرنگ سے متعلق مزید کیا معلومات ہیں

نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آکلینڈ میں یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بج کر بیس منٹ پر اس مقام پر پیش آیا، جہاں تعمیراتی کام جاری تھا۔ بندوق بردار کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور چھ دیگر زخمی ہوئے اور بعد میں بندوق بردار کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔

جہاں یہ واقعہ پیش آیا اس کے پاس ہی خواتین کے فٹبال ورلڈ کپ کے شائقین کا ایک پروگرام بھی ہونا طے تھا۔

اطلاعات کے مطابق بندوق بردار کے بارے میں پولیس کو معلوم تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ خاندان میں ہونے والے تشدد اور دماغی صحت کے مسائل سے دو چار تھا۔

پولیس نے بتایا کہ اسے گھر میں ہی نظر بندی کا حکم دیا گیا تھا، تاہم اسے تعمیراتی جگہ پر کام کرنے سے استثنیٰ بھی حاصل تھا۔ اس کے پاس آتشیں اسلحہ رکھنے کا لائسنس بھی نہیں تھا۔

پولیس کمشنر اینڈریو کوسٹر نے کہا کہ ”ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ اس سے کسی اعلیٰ سطح کا کوئی خطرہ لاحق تھا۔”

کوسٹر نے مزید کہا، ”مجرم نے پولیس پر فائرنگ کی، جس سے ایک افسر بھی زخمی ہوا۔ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور بعد میں مجرم مردہ پایا گیا۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”افسوسناک طور پر پولیس کو عمارت کے نچلے حصے میں ہلاک ہونے والے دو افراد کی لاشیں ملیں۔”

پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ شہر کے مرکز میں مصروف ترین گلیوں میں سے ایک پر ہونے والی فائرنگ کو ”محفوظ رکھا گیا اور یہ ایک الگ تھلگ واقعہ رہا۔ یہ واقعہ قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔”

اس سے پہلے آکلینڈ کے میئر وین براؤن نے صورتحال کو ”خوفناک” قرار دیا اور لوگوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ دور رہیں کیونکہ ”پولیس پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔”

خواتین کے ورلڈ کپ کے موقع پر فائرنگ

یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا، جب نیوزی لینڈ آسٹریلیا کے ساتھ مشترکہ طور پر فیفا ویمنز ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے کی تیاری کرنے میں مصروف ہے۔ جمعرات کی شام کو ہی ٹورنامنٹ کا افتتاحی میچ شروع ہونے والا ہے۔

جہاں فائرنگ ہوئی اسی کے پاس واقع ایک ہوٹل میں فلپائن کی ٹیم ٹھہری ہے۔ اسی چوک سے صرف 300 میٹر کے فاصلے پر ناروے کی ٹیم بھی ہے، جو جمعرات کو ایڈن پارک میں ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ سے کھیلنے والی ہے۔

ناروے کی کپتان مارین مجلدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ”جب ہیلی کاپٹر ہوٹل کی کھڑکی کے باہر منڈلا رہا تھا اور بڑی تعداد میں ہنگامی گاڑیاں وہاں پہنچیں، تو ہر کوئی آنا فانا جاگ گیا۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”پہلے تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے، لیکن پھر ٹی وی اور مقامی میڈیا پر اپ ڈیٹس آئے۔ ہم نے پورا وقت خود کو محفوظ محسوس کیا۔ فیفا نے ہوٹل میں سکیورٹی کا اچھا انتظام کیا ہے اور اسکواڈ میں ہمارا اپنا سکیورٹی افسر بھی ہے۔”

جس مقام پر شوٹنگ کا واقعہ پیش آیا وہیں پر جمعرات کے روز شائقین نے ایک تقریب کا پروگرام بھی رکھا تھا، تاہم متاثرین کے احترام میں اسے منسوخ کر دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں