بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی فسادات کے اسباب کیا ہیں؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارت میں ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کے دوران مسلمانوں کے ساتھ آئے روز کی جھڑپیں تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے لیے حکمران جماعت بی جے پی سمیت ہندو قوم پرست لوگ قصوروار ہیں۔

بھارتی دارالحکومت دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں جولائی کے اواخر میں سخت گیر ہندوؤں کے ایک گروپ کی جانب سے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں مذہبی جلوس کے دوران مذہبی فسادات تشدد کا تازہ ترین واقعہ ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی اس ریاست میں جھڑپوں کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے۔

حکومت کا فرقہ وارانہ فسادات کا جواب

نوح کا تشدد گروگرام شہر تک پھیل گیا، جہاں ایک ہندو ہجوم نے ایک مسجد کو آگ لگا دی اور اس کے امام کو ہلاک کر دیا۔ فسادیوں نے شہر کے زیادہ تر مسلمان محنت کش طبقات کے حصے میں دکانوں اور گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔

بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستوں کی طرح ہی ہریانہ کے حکام نے بھی اس کا جواب مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں، عمارتوں اور عارضی ڈھانچوں کو مسمار کر دیا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ انہیں غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔

حکام نے 94 مکانات اور 212 دیگر ڈھانچوں کو مسمار کر دیا اور گزشتہ چار دنوں میں حکام کی جانب سے مسمار کی جانے والی عمارتوں کی کل تعداد 750 سے زائد ہو گئی ہے۔ انہدامی کارروائی کو اس ہفتے اس وقت معطل کیا گیا، جب ریاست کی ہائی کورٹ نے اس کارروائی پر روک لگا نے کا حکم دیا۔

ریاستی حکومت کی انہدامی کارروائیوں کے لیے کے اس پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا، باوجودیکہ مسلمان ہی تشدد کا نشانہ بنے تھے۔

قانون ساز اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پارٹی کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے مجرموں کو چھوڑ دیا ہے۔

اویسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ یکطرفہ کارروائی ہے۔ تشدد کرنے والے آزادانہ طور پر گھوم رہے ہیں۔ سینکڑوں غریب مسلمان بے گھر ہو گئے ہیں کیونکہ ہدف بناکر کی جانے والی انہدامی کارروائیوں مسماری وہی زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کا حکومتی ردعمل ”خاص طور پر مذہبی تشدد یا احتجاج کے بعد ہوتا ہے۔”

بی جے پی اس کا الزام کسی اور پر لگاتی ہے

بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کی عمارتوں کو منہدم کرنے سے پہلے کوئی نوٹس تک نہیں دیا گیا تھا، جبکہ بہت سے دوسروں کا دعوی ہے کہ فسادات کے وقت وہ اپنے گھروں پر موجود تک نہیں تھے۔

ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ دونوں برادریوں کے درمیان تصادم کے پیچھے ایک بڑی سازش تھی اور اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہے کہ آخر ہوا کیا تھا۔

بی جے پی کے ایک وزیر راؤ اندرجیت سنگھ نے بتایا کہ اگر، ”دونوں برادریوں کے پاس ہتھیار تھے تو یہ انکوائری کا معاملہ ہے کہ ان کے پاس یہ ہتھیار کیسے آئے اور انہوں نے ایسا ماحول کیوں بنایا۔ ہریانہ حکومت اس کی تحقیقات کرے گی۔”

ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے بتایا کہ ہریانہ اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے ایسے واقعات بدقسمتی سے ہوئے جو، بی جے پی حکومت کی ہندو قوم پرست سیاست کا واضح نتیجہ ہے۔

گنگولی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ انتہائی تکلیف دہ ہے کہ بھارتی حکام فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف اپنے ردعمل میں صریحاً جانبداری کا مظاہرہ

کر رہے ہیں، اقلیتوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم اگر اقلیتی برادریوں کو احتجاج پر اکسایا جائے، تو انہیں اجتماعی طور پر سزا دی جاتی ہے۔”

کیا بھارت سیکولر اقدار سے پیچھے ہٹ رہا ہے؟

پچھلے ایک سال کے دوران ہندو مذہبی جلوس کے دوران اکثرپورے بھار ت میں تشدد اور افراتفری پھیلاتے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اب مذہبی بنیاد پر اس بڑھتی ہوئی صف بندی سے پریشان بھی ہیں۔

نئی دہلی، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور گجرات میں بی جے پی کی حکومتیں ”انسداد تجاوزات” کی مہم کا نام دے کر مسلمانوں کی درجنوں جائیدادوں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کر چکی ہیں۔

گرچہ حکام کا کہنا ہے کہ مسماری صرف غیر قانونی عمارتوں کو نشانہ بناتی ہے، انسانی حقوق گروپوں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انہیں پسماندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ رجحان مودی کی حکمرانی میں بڑھتی ہوئی مذہبی کشیدگی کی لہر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

مخالفین کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کی جماعت کی حکومت میں بھارت اپنی سیکولر اقدار سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔

کانگریس پارٹی کے ایک رہنما جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ ”نوح میں تشدد پولرائزیشن کی سیاست کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ بی جے پی کی حکمت عملی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ راجستھان تک پھیل جائے۔”

واضح رہے کہ ریاست راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں رواں برس کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے پہلے ہوں گے، جب مودی وزارت عظمی کی تیسری مدت کے لیے کوشش کرنے والے ہیں۔

اس سال کے شروع میں مہاراشٹر، مغربی بنگال اور بہار جیسی ریاستوں میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کا ایک ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا تھا۔ اس دوران زیادہ تر پتھراؤ اور آتش زنی دکانوں اور اداروں کو نقصان پہنچانے تک محدود رہے، تاہم ان چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کی بڑھتی تعداد اب تشویش کا باعث بننا شروع ہو گئی ہے۔

ہندو قوم پرست تشدد کیلئے ذمہ دار

رواں برس کے اوائل میں سٹیزنز اینڈ لائرز انیشی ایٹو نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری؛ کی تھی، جس میں سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے بار بار ایسے واقعات کے دوہرائے جانے والے طریقہ کار کی تفصیل پیش کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس کا مقصد ہندو تہواروں کے دوران پولرائزیشن پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کو اکسانا اور انہیں دہشت زدہ کرنا ہے۔

اس رپورٹ کا عنوان تھا ”غصے کا راستہ: مذہبی جلوسوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنا”۔ 174 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے ہندو جلوس خود ہی کئی طریقوں سے تشدد کا بنیادی محرک بن جاتے ہیں۔

اس میں کہا گیا، ”جلوسوں میں ایسے جارحانہ نعرے اور موسیقی کا استعمال کیا جاتا ہے کہ جس میں کھلے عام غیر ہندوؤں اور خاص طور پر مسلم کمیونٹی کے خلاف تشدد کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔”

اس کے مطابق، ”جس چیز کو ‘صرف مذہبی نعروں ‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ درحقیقت براہ راست سیاسی پیغامات ہیں؛ وہ ہجومی تشدد اور قتل عام سے لیس پیغامات ہوتے ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں