اے پی ایس حملہ کیس: پشاور ہائیکورٹ نے حکومتی اپیل پر کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا

پشاور (ڈیلی اردو) پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل بینچ نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کے الزام میں گرفتار 2 ملزموں کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سیشن کورٹ منتقل کرنے کے خلاف دائر حکومتی اپیل پر کیس کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

دو رکنی بنچ نے صوبائی حکومت کی اپیل کی سماعت کی۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے آرمی پبلک سکول پر حملے کے مقدمے میں نامزد 2 ملزمان کمانڈر اور شکیل کا کیس سیشن کورٹ کو ارسال کر دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ شکیل کی عمر 18سال سے کم ہے لہذا اے ٹی سی کورٹ اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتا اور یہ اختیار سیشن کورٹ کا ہے۔

اے اے جی دانیال چمکنی نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں پشاور ہائیکورٹ کے ایک بنچ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر اس کیس کو سیشن کورٹ ارسال کیا گیا ہے۔

انہوں نے دلائل دیئے کہ کمانڈر جوینائل نہیں ہے جبکہ صرف شکیل جوینائل ہے اور کیس میں کم سے کم سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔ اس لئے اس کو کسی طور سیشن کورٹ میں نہیں بھیجا جا سکتا اور یہ صرف اور صرف اے ٹی سی عدالت کا اختیار ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں بعض شواہد بھی ریکارڈ کئے گئے ہیں اور یہ 2019 سے زیر حراست ہیں تو کس طرح ان کیسز کو اب سیشن کورٹ بھیجا جا رہا ہے لہذا اس حکم نامہ کو کالعدم قرار دیا جائے اور ملزمان کا اے ٹی سی میں ٹرائل جاری رکھا جائے۔ عدالت نے کیس کا ریکارڈ 23 اگست تک طلب کرلیا۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 16 دسمبر 2014 کی صبح آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 132 طلبہ سمیت 144 ے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

نیشنل ایکشن پلان

واقعے کے بعد پاکستان کے سول اور فوجی حکام نے مشاورت کے ساتھ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جس کے تحت دہشت گردوں کو فوری سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ پھانسی کی سزا پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ پابندی بھی ہٹا لی گئی۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کی روک تھام کے لیے صوبائی سطح پر سول اور فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

ملک کی مختلف جیلوں میں قید سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو تختۂ دار پر لٹکایا جانے لگا جب کہ فوجی عدالتوں سے بھی کئی دہشت گردوں کو سزائیں سنائی گئیں۔

حکام کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں 21 ہزار 500 سے زائد کارروائیاں کی گئیں۔ ان کارروائیوں میں 1300 عسکریت پسند ہلاک اور 800 زخمی ہوئے جب کہ 5500 کو گرفتار کیا گیا۔

درجنوں دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات بھی چلائے گئے اور سزائیں سنائی گئیں۔ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔

فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً 200 ملزمان کی سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے حکمِ امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔

جوڈیشل کمیشن

ابتداً پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے واقعے کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین کے اصرار پر 2018 میں پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ابراہیم خان کی سربراہی میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔

کمیشن نے سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین، پولیس اور فوجی افسران، اسکول کی سیکیورٹی پر تعینات اہل کاروں سمیت 150 کے لگ بھگ افراد کے بیانات قلم بند کیے۔

عدالتی کمیشن نے دو برس بعد اپنی رپورٹ مکمل کی جسے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرا دیا گیا۔

اے پی ایس اسکول حملے کے متاثرین کی تنظیم کے صدر فضل خان ایڈووکیٹ نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور عدالت کی طرف سے جو کمیشن بنایا گیا تھا، اس میں ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے تعریف کی گئی۔

واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی قرار

عدالتی کمیشن نے اپنی 525 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسکول کی سیکیورٹی پر سوالات اُٹھانے کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے کردار، انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے سہولت کار بننے کے معاملے کا بھی تفصیلی احاطہ کیا۔

رپورٹ میں دہشت گردوں کے پاک، افغان بارڈر سے اسکول تک پہنچنے کو بھی لمحۂ فکریہ قرار دیا گیا۔

یہ رپورٹ جولائی 2020 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی جس نے اسے عام کرنے کا حکم دیا۔

عدالتی کمیشن نے اسکول کے گردو نواح کی آبادی میں موجود بعض افراد کے سہولت کار بننے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب اپنے ہی غدار ہو جائیں تو پھر ایسی تباہی کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گرد اسکول کی عقبی دیوار سے بغیر کسی مزاحمت کے اسکول کے اندر داخل ہوئے، اگر اُنہیں وہیں روکنے کی کوشش کی جاتی تو اتنی بڑی تباہی نہ ہوتی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) نے حملے سے قبل ہی ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا تھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ آپریشن ضربِ عضب کی ‘کامیابی’ کے باعث فوجی افسران اور اُن کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

عدالتی کمیشن نے رپورٹ میں لکھا کہ اس ایک واقعے نے دہشت گردوں کے خلاف فوج کی کامیابیوں پر پانی پھیر دیا۔

سپریم کورٹ کا اُوپر سے کارروائی کرنے کا حکم

ستمبر 2020 میں سانحہ اے پی ایس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے سانحات میں نچلے افسران کو قربانی کا بکرا بنانے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ لہذٰا اب اُوپر سے کارروائی کا آغاز ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دہشت گرد اس حملے کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ لیکن سیکیورٹی اداروں کو اتنی بڑی منصوبہ بندی کا پہلے سے علم ہونا چاہیے تھا۔

احسان اللہ احسان کی گرفتاری اور مبینہ فرار

سال 2017 میں پاکستان کی فوج نے کالعدم تحریکِ طالبان کے ترجمان احسان اللہ کی گرفتاری کا اعلان کیا جنہوں نے سانحۂ آرمی پبلک اسکول واقعے کی ذمے داری قبول کی اور کہا کہ وہ ٹی ٹی پی سے الگ ہو چکے ہیں۔

البتہ گزشتہ برس جنوری میں اُن کی فوجی تحویل سے فرار کی خبریں سامنے آئیں جس کی بعد ازاں اس وقت کے وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے تصدیق کی۔

سانحہ اے پی ایس کے متاثرہ والدین نے احسان اللہ احسان کے فرار کی مذمت کرتے ہوئے اسے سیکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیا۔

وزیرِ اعظم کا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بیان پر والدین نالاں

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ ترک ٹی وی ‘ٹی آر ٹی ورلڈ’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ حکومت کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔

اس بیان پر اے پی ایس اسکول حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کی تنظیم نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتے۔

تنظیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام، کور کمانڈر پشاور جنرل ہدایت الرحمٰن، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اور خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

اب بھی یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہے اور عدالت نے ایک بار اس واقعے کے ذمے داروں کے تعین کا حکم دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں