پنجاب: جڑانوالہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کیخلاف پرتشدد احتجاج میں متعدد گرجا گھر نذرآتش، رینجرز طلب

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے کے بعد مشتعل مظاہرین نے مسیحی آبادی پر دھاوا بول کر متعدد گرجا گھروں کو نذرِ آتش کر دیا ہے جبکہ کرسچین کالونی کے علاوہ سرکاری عمارتوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں حالات تاحال کشیدہ ہیں اور صورتحال پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ احتجاج کا یہ سلسلہ بدھ کی صبح اُس وقت شروع ہوا جب عیسیٰ نگری نامی علاقے میں چند نوجوانوں کی جانب سے قرآن کے اوراق کی مبینہ بےحرمتی کی اطلاعات شہر اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جس کے نتیجے میں صبح نو بجے کے قریب مشتعل افراد سنیما چوک کے پاس اکٹھے ہونے لگے۔

بی بی سی کے مطابق اہلکار کا کہنا ہے کہ اس مشتعل ہجوم نے دو گرجا گھر تباہ کیے۔ پہلے ہجوم کی جانب سے عیسیٰ نگری محلے میں ایک چرچ کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے علاوہ اس سے سوا کلومیٹر کی دوری پر ٹیلی فون ایکسچینج کے پاس موجود ایک چرچ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد عہدے سے ہٹائے جانے والے اے سی جڑانوالہ شوکت مسیح نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ‘صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہمیں مشتعل مظاہرین کی جانب سے عیسیٰ نگری میں احتجاج اور آگ لگائے جانے کی اطلاعات ملیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مشتعل مظاہرین نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے ہیں اور ایسے ہی ایک گروہ کی جانب سے اے سی جڑانوالہ کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا۔’

حکام کے مطابق اس وقت صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور لاہور سے رینجرز کے 150 جوان جڑانوالہ پہنچ رہے ہیں۔

واقعہ کیا پیش آیا؟

اس واقعے کے عینی شاہد اور جڑانوالہ کے مقامی صحافی حسام نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کرسچین کالونی میں عامر نامی نوجوان نے چند ایسے پمفلٹ لکھے جو مبینہ طور پر توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں اور انھوں نے مبینہ طور پر قران پاک کے چند اوراق کی بھی بےحرمتی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘

حسان کے مطابق مظاہرین نے نہ صرف اس بستی میں موجود تین گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کے 15 مکانات کو بھی آگ لگا دی۔

انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کرسچین کالونی کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کو بھی کہا۔ صحافی کے مطابق بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔

جڑانوالہ کے تھانہ سٹی کے ایک اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ مظاہرین کی جانب سے مسیحی بستی میں موجود کچھ گھروں کو آگ لگائے گئی ہے جبکہ وہاں لوٹ مار کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں جن میں کرسچین کالونی، ناصر کالونی، عیسیٰ نگری، مہاراوالا، چک نمبر 120 گ ب شامل ہیں،حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کے شہر کے وسط میں قائم کرسچین کالونی کی آبادی گھروں کو چھوڑ کر جا چکی ہے اور مشتعل ہجوم نے ان مکانات میں بھی توڑ پھوڑ کی ہے۔

جڑانوالہ کے گرجا گھروں کے انچارج فادر خالد مختار نے بی بی سی کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘صبح چھ بجے اطلاع ملی کہ کرسچین کالونی جڑانوالہ میں ایک مسلم گھر کے سامنے نامزد ملزمان نے مبینہ طور پر قرآن کی بےحرمتی کی ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘واقعے کے فوراً بعد کرسچین کالونی میں حالات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے اور مشتعل افراد نے مقامی گرجا گھر کو نذر آتش کر دیا۔ اس کے بعد شہر میں مسیحی برادری کے تمام علاقوں میں حالات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے‘۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘اب تک شہر میں چھ گرجا گھر جلائے جا چکے ہیں۔ جبکہ ان کی اپنی رہائش گاہ پیرش پاسٹر ہاؤس کو بھی تذر آتش کر دیا گیا ہے۔

فادر خالد مختار کے مطابق ‘کرسچین کالونی میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ کرسچین کالونی کا گرجا گھر نذر آتش کرنے کے بعد ایک گروہ نے ناصر کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ پیرش ہاؤس کا رخ کیا اور دو گھنٹے سے زیادہ وہ اس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے رہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ خود بھی مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ گئے تھے اور تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت تک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ناصر کالونی میں واقع گھر میں محصور رہنے کے بعد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

فادر خالد مختار کے مطابق اس دوران انھوں نے متعدد مرتبہ پولیس کی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی لیکن پولیس ان کی مدد کو نہیں آئی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس دوران مشتعل ہجوم ایک دوسری بستی میں قائم گرجا گھر کو نذر آتش کرنے کا ارادہ لیے ان کے گھر سے دور ہوا جس کے فوراً بعد وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد ہجوم نے پیرش پاسٹر ہاؤس کو بھی جلا دیا۔

مقدمے کی ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟

جڑانوالہ پولیس کی جانب سے بدھ کو دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف قرآن کی بےحرمتی اور توہینِ رسالت کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ جب موقع پر پہنچے تو انھیں وہاں سے قرآن کے اوراق ملے جن پر سرخ پنسل سے گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے اور ایک کلینڈر بنایا ہوا تھا تاہم ملزمان موقع سے فرار ہو چکے تھے۔

فیصل آباد پولیس کی جانب سے بھی ٹوئٹر پر جاری پیغام میں جڑانوالہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’قرآن پاک کی بےحرمتی کرنے والوں کے خلاف سٹی تھانہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج ہو چکا ہے اس لیے مظاہرین اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ سے گریز کریں‘۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے ہیں تاہم وہ فرار ہو چکے ہیں۔

نیشنل کونسل آف چرچز آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر آزاد مارشل نے ‘ایکس’ پلیٹ فارم (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے ردِعمل میں واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔

ڈاکٹر آزاد مارشل کا کہنا تھا کہ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو جڑانوالہ میں ہمارے گرجا گھروں اور املاک کو جلایا جا رہا ہے۔ بائبل کی بے حرمتی کی گئی اور مسیحی افراد کو اذیتیں دی گئی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ مسیحی شہریوں پر قرآن کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ ہم انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہیں۔

یہ پاکستان میں پہلا موقع نہیں ہے کہ توہین مذہب کے مبینہ الزامات لگائے جانے کے بعد مسیحی برادری کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

سنہ 2013 میں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی پر ایسے ہی ایک حملے اور آتشزنی کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی بے گھر ہو گئے تھے جبکہ علاقے میں امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا ہوا تھا۔

اس سے قبل اگست 2009 میں ضلع فیصل آباد کی ہی ایک اور تحصیل گوجرہ میں مسلم مسیحی فسادات کے نتیجے میں کم از کم چھ مسیحی ہلاک ہوئے تھے۔

گوجرہ کے ایک گاؤں میں یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے تھے جب مسیحی برادری کی ایک شادی کے دوران مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہو کر گاؤں کی مسلمان آبادی نے ایک مسیحی بستی پر دھاوا بول کر چالیس کے قریب مکانات کو آگ لگا دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں