گلگت بلتستان میں ناموس صحابہ کے ترمیمی قانون پر کشیدگی، دفعہ 144 نافذ، انٹرنیٹ بند

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو ) شمالی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کے بعد کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت کو جزوی یا مکمل طور پر بند اور سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔

پاکستانی ایوان بالا یعنی سینٹ سے گزشتہ ماہ ناموس صحابہ بل کی منظوری کے ساتھ ہی اس پر بعض مذہبی جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا اور اب فرقہ وارانہ لحاظ سے حساس سمجھے جانے والے صوبے گلگت بلتستان میں اس قانون سازی پر پائی جانے والی کشیدگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

فوجداری قانون تریمی بل 2023ء کے عنوان سے ناموس صحابہ کے قانون کی منظوری پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے دور میں دی گئی تھی۔ اس بل کے تحت پیغمبر اسلام کے اہل خانہ اور ساتھیوں یعنی صحابہ کے خلاف غیر مناسب زبان استعمال کرنے پر سزا 3 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا تھا۔

‘متنازعہ قانون سازی’

عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر بابا جان کا کہنا ہے کہ علاقے میں موجودہ کشیدگی سابقہ حکومت کے دور میں ناموس صحابہ بل کی منظوری کے بعد سے شروع ہوئی۔بابا جان کے بقول اس بارے میں ملک بھر کی اہل تشیع کمیونٹی کو شکایت ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بابا جان کا کہنا تھا،” اسکردو میں ایک شیعہ عالم کی ویڈیو کو پورے علاقے میں پھیلایا گیا، جس میں بعض مذہبی ہستیوں کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ضلع چلاس میں اہل تشیع علماء کو بھی دھمکیاں دی گئیں اور پھر ایک ویڈیو گلگت سے منظر عام پر آئی، جس میں شیعہ مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے لیے بھی نامناسب زبان استعمال کی گئی اور یوں گلگت بلتستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔‘‘

صورت حال مزید خراب ہونے کا خدشہ

ایک مقامی صحافی زیبا بتول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکردو میں شیعہ جبکہ چلاس میں سنی برادریاں مشتعل ہیں۔ انہوں نےکہا، ”ایسی اطلاعات ہیں کی دونوں گروپس مسلح ہیں، جس کی وجہ سے کشیدگی خطرناک صورت حال اختیار کر سکتی ہے۔‘‘

انٹرنیٹ پر پابندی کیوں؟

گلگت شہر میں مقیم صحافی عبدالرحمان بخاری کا کہنا ہے کہ علاقے میں رینجرز اور فرنٹئیر کانسٹیبلری کے دستے پہلے سے ہی موجود ہیں اور فوج بھی کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’متنازعہ نوعیت کی سوشل میڈیا ویڈیوز کی وجہ سے کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ میرے خیال میں حکام نے اسی وجہ سےانٹرنیٹ پر پابندی لگائی تاکہ مختلف عناصر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔‘‘

حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش؟

بابا جان کے خیال میں موجودہ صورتحال لوگوں کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹانے کے لیے دانستہ طور پر پیدا کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا، ”صوبائی حکومت گندم پر سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور حال ہی میں یونیورسٹیوں کی فیسیں بھی بڑھائی گئی ہیں۔ ان سارے مسائل پر مظاہرے اور احتجاج چل رہےتھے۔ اسی دوران یہاں فرقہ ورانہ عناصر کو سرگرم کردیا گیا تاکہ ان حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹائی جائے۔‘‘

عوام پریشان

ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحٰمن کے ترجمان فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ صورت حال اب بھی کشیدہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دیامر اور کئی دوسرے علاقوں میں اب بھی ایک ان دیکھی کشیدگی ہے، جس سے عام آدمی بہت متاثر ہو رہا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں یہ سیاحت کا سیزن ہے لیکن ایک ریڑھی لگانے والا، دکان چلانے والا اور ہوٹل میں کام کرنے والا بہت پریشان ہے کیونکہ اس کشیدگی کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہو رہا ہے۔ فیض اللہ فراق کے مطابق، ”کچھ ایف آئی ار دونوں گروپس کے علماء کے خلاف کٹ چکی ہیں۔ اور کچھ مزید رجسٹر ہو سکتی ہے جس سے کشیدگی مزید بڑھے گی۔‘‘

کوئی کشیدگی نہیں، حکومت

گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری محی الدین وانی نے ڈی ڈبلیو کو اس حوالے سے فون پر پیغامات کے ذریعے بتایا کہ گلگت بلتستان میں صورتحال مکمل طور پر پرامن ہے اور فوج کی طلبی کے حوالے سے جو خبریں چل رہی ہیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے بتایا، ”تمام سڑکیں، تجارتی مراکز، تجارتی سرگرمیاں اور تعلیمی ادارے معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔‘‘ محی الدین وانی کا مزید کہنا تھا، ”آرمی اور سول آرمڈ فورسز کو محرم کے مہینے میں چہلم کے حوالے سے طلب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جلوس کے راستوں اور امام بارگاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں، جو ایک معمول کی بات ہے۔

وانی کے مطابق دفعہ 144 پورے علاقے میں امن و امان قائم کرنے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے لگائی گئی ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں