طالبان تنازعہ: پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

کراچی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر گزشتہ ہفتے ہوئی خونریز جھڑپوں کے بعد پاکستان میں افغان مہاجرین پر کریک ڈاؤن کا ایک نیا سلسلہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے افغان مہاجرین کے خلاف ایک نیا کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ اس کا مقصد افغانستان میں برسر اقتدار طالبان پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنے ہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کا سدباب کریں۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف یہ کریک ڈاؤن ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے، جب تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے گزشتہ ہفتے ہی چترال کے سرحدی علاقے میں پاکستانی سکیورٹی فورسز حملے کیے۔

شدت پسندوں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان یہ جھڑپ چھ ستمبر کو ہوئی تھی۔ افغان صوبے نورستان سے متصل پاکستانی علاقوں میں اب بھی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

ان پرتشدد واقعات کے بعد پاکستان نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں کے خاتمے کی کوشش کریں۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف ایکشن

اگرچہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف پہلے بھی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں لیکن چترال حملے کے ایک دن بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان مہاجرین کے خلاف بڑے پیمانے پر ایک نیا کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔

اس تازہ کارروائی میں کراچی میں مقیم افغان مہاجرین کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک کم ازکم ساڑھے تین سو افغان مہاجرین حراست میں لیے جا چکے ہیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیے گئے ان افغان باشندوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے میڈیا سے گفتگو میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حکومت نے سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں مقیم غیرقانونی افغان مہاجرین کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

پاکستانی ریاست نے مہاجرین سے متعلق سن 1951 کے جنیوا کنونشن اور 1967 پروٹوکول جیسے عالمی معاہدوں دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں داخل ہونے والے یا مقیم کسی بھی مہاجر پر ملک کے فارنرز ایکٹ کا اطلاق ہی ہوتا ہے۔

سرحد پر کشیدگی، افغان مہاجرین کے لیے درد سر

ماضی میں بھی پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے مابین کسی بھی کشیدگی کے نتیجے میں زیادہ تر پریشانی کا سامنا پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو کرنا پڑا ہے۔

کراچی میں افغان مہاجرین کو قانونی مدد فراہم کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران اسلام آباد اور کابل کے مابین جب بھی کوئی کشیدگی ہوئی تو اس کا اثر فوری طور پر پاکستان میں موجود افغان مہاجرین پر پڑا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں منیزہ کا کہنا تھا، ”بالخصوص ایسے افغان مہاجرین جن کے پاس قانونی دستاویزات یا ویزا نہیں ہوتا، انہیں افغانستان ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں افغان مہاجرین سے رشوت بھی بٹوری جاتی ہے۔

منیزہ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ کچھ کیسوں میں پاکستان میں قانونی طریقے سے مقیم افغان مہاجرین سے ان کے آئی ڈی کارڈ اور دیگر دستاویزات ضبط کر کے انہیں غیر قانونی مہاجر بنا دیا جاتا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے سے قبل فاروق خان صوبہ قندھار میں پولیس اہلکار تھے۔ اگست سن دو ہزار اکیس میں وہ طالبان کے خوف سے فرار ہو کر کراچی آئے اور یہاں پناہ کی درخواست جمع کرائی۔

اس حالیہ کریک ڈاؤن سے فاروق خان کو بھی خوف ہے کہ ان کے ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں، میں باہر کم ہی جاتا ہوں۔ مجھے خوف ہے کہ مجھے بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

فاروق خان کو خوف ہے کہ اگر انہیں افغانستان واپس بھیجا گیا تو انہیں طالبان گرفتار کر سکتے ہیں یا ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا سلوک برتا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی تاریخ

پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کوئی نئی بات نہیں۔ سن 1979 میں سوویت حملے کے بعد پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر افغان باشندے پاکستان آئے تھے۔

اور آخری بار اب سن دو ہزار اکیس میں افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی افغان شہریوں کی بڑی تعداد بطور مہاجر پاکستان پہنچی ہے۔

افغان مہاجرین کو پناہ فراہم کرنے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی تعداد تیرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں مقیم اضافی ساڑھے آٹھ لاکھ افغان باشندوں کے پاس افغان سیٹزن کارڈ ہے جبکہ تقریبا ساڑھے تین لاکھ ایسے بھی ہیں، جو بغیر کسی دستاویز کے ہی پاکستان میں مقیم ہیں۔

وزارت ریاستی اور سرحدی امور سے وابستہ ایک اعلیٰ اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ دو سال قبل جب افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو اس وقت چھ لاکھ افغان ملک سے فرار ہو کر پناہ کی غرض سے پاکستان داخل ہوئے۔

مقامی آبادی کے تحفظات

افغان مہاجرین کی آمد پاکستانی عوام کے لیے ہمیشہ ہی ایک غیر یقینی صورتحال کی وجہ رہی ہے۔ پاکستانی افغان مہاجرین کو ملک کی اقتصادیات اور وسائل پر ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ کچھ پاکستانیوں کا یہ خیال بھی ہے کہ افغان باشندوں کی وجہ سے ملکی آبادی کا تناسب بھی بدل رہا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی نے بتایا ہے کہ ان کے ادارے نے افغان مہاجرین کی گرفتاریوں پر متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے یہ معاملہ اٹھایا ہے۔

آفریدی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں افغان مہاجرین پر کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور عوام کی طرف سے افغان مہاجرین کو پناہ دینے کا قابل تعریف ریکارڈ ہے، اس لیے وہ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ گرفتار کیے گئے افغان مہاجرین کو فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں