افغانستان میں کیمروں اور جاسوسی کا جال

کابل (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز) افغان طالبان نے ملک ميں نگرانی بڑھانے کے ليے کيمروں کے نيٹ ورک ميں وسعت کا فيصلہ کيا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ اس سے داعش کے جنگجوؤں کو پکڑنے ميں مدد ملے گی۔ مگر ناقدين کا کہنا ہے کہ سول سوسائٹی کو بھی ہدف بنايا جا سکتا ہے۔

طالبان ملک ميں جاسوسی کے ليے ايک وسيع تر نيٹ ورک قائم کر رہے ہيں، جس کا مقصد سلامتی کی صورتحال بہتر بنانا ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان عبدل متين قانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتايا کہ دارالحکومت کابل ميں پہلے ہی ہزارہا کيمرے نصب ہيں اور منصوبے کے تحت ان کی تعداد بڑھائی جائے گی۔

اقوام متحدہ کی اس سال جولائی کی ايک رپورٹ کے مطابق افغانستان ميں اس وقت اسلامک اسٹيٹ کے چھ ہزار جنگجو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ موجود ہيں۔ طالبان کی انتظاميہ عوامی سطح پر يہ کہہ چکی ہے کہ افغانستان ميں قيام امن اور داعش جيسے گروہوں کے خلاف کارروائی اس کے اہداف ميں شامل ہيں۔ بين الاقوامی وفود کے ساتھ ملاقاتوں ميں بھی يہی بات واضح دکھائی دی۔ البتہ چند مبصرين يہ سوال اٹھا رہے ہيں کہ پہلے ہی سے مالی مشکلات کی شکار انتظاميہ اس اعلی سطحی سرويلنس نيٹ ورک کے قيام کے ليے وسائل کہاں سے لائے گی۔

اب تک کی پيش رفت

افغانستان ميں کيمروں کی مدد سے سرويلنس کے وسيع تر نيٹ ورک کا قيام در اصل ايک امريکی منصوبہ تھا۔ دو برس قبل امريکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء سے قبل اسے ترتيب ديا گيا تھا اور اس ہی کے تحت کابل ميں لگ بھگ باسٹھ ہزار کيمرے نصب ہيں۔ قانی نے بتايا کہ کيمروں کی تعداد ميں اضافہ نئی حکمت عملی کا حصہ ہے اور انہيں مکمل طور پر فعال ہونے ميں چار سال لگ سکتے ہيں۔ انہوں نے بتايا، ”اس وقت ہم سلامتی سے متعلق ماہرين کی مدد سے کابل کا ايک سکيورٹی ميپ تيار کر رہے ہيں، جس ميں وقت لگ رہا ہے۔‘‘

امريکی محکمہ خارجہ کے ايک ترجمان نے بتايا کہ واشنگٹن اس سلسلے ميں کابل کے ساتھ کوئی تعاون نہيں کر رہا اور يہ بھی کہ امريکی حکومت نے طالبان کو واضح پيغام دے ديا ہے کہ يہ ان کی ذمہ داری ہے کہ افغانستان کو دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ نہ بننے دیں۔

چينی کمپنی کے ساتھ بات چيت جاری
وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتايا کہ اس سلسلے ميں چينی کمپنی ہواوے سے رابطہ ہو چکا ہے۔ ان کے بقول فی الحال کوئی حتمی معاہدہ يا سمجھوتہ طے نہيں پايا۔ مگر ‘بلومبرگ نيوز‘ نے اگست ميں ايک قريبی ذريعے کے حوالے سے رپورٹ کيا تھا کہ کيمروں کی تنصيب کے حوالے سے طالبان اور ہواوے کے مابين لفظی سمجھوتہ طے پا گيا ہے۔ پھر ہواووے نے ستمبر ميں روئٹرز کو بتايا کہ فی الحال کوئی منصوبہ زير بحث نہيں آيا۔ چينی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھی کہا کہ وہ اس حوالے سے کسی مخصوص رابطہ کاری سے آگاہ نہيں البتہ ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ بيجنگ حکومت ہميشہ سے افغانستان ميں قيام امن اور ترقی چاہتی آئی ہے اور اس عمل ميں مدد کرنے والی چينی کمپنيوں کی حمايت کرتی ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کے ليے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ طالبان ايسے کسی نيٹ ورک کو سول سوسائٹی کے ارکان و مظاہرين کے خلاف استعمال کر سکتے ہيں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں