بلوچستان:مستونگ میں عید میلاد النبی کے جلوس پر خودکش حملہ، ڈی ایس پی سمیت 54 افراد ہلاک، درجنوں زخمی

اسلام آباد (ڈیلی اردومانیٹرنگ ڈیسک) صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں ڈی ایس پی سمیت 54 افراد ہلاک جبکہ ستر سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔

صوبائی حکومت نے اس حادثے پر تین روز ہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس خودکش حملے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔ اس شورش زدہ ضلع میں ہونے والے اکثر دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری ماضی میں شدت پسند تنظیم داعش قبول کرتی رہی ہے۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس دھماکے کو “انتہائی گھناؤنا فعل” قرار دیا۔

مستونگ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رشید محمد شہی نے بتایا کہ دھماکے میں 54 افراد ہلاک جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق زخمیوں میں سے 52 افراد کو سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹرمنتقل کیا گیا جبکہ بعض زخمیوں کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا۔

مستونگ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میدیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نثار احمد نے نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز کو بتایا کہ ہسپتال میں 16 لاشیں لائی گئیں جبکہ شہید نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال کے چیف ایگزیکیٹو افسر (سی ای او) ڈاکٹر سعید میروانی نے تصدیق کی کہ ان کے پاس 32 لاشیں لائی گئی ہیں۔

سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے کہا کہ مستونگ دھماکے میں جان کی بازی ہارنے والے 5 افراد کی لاشیں یہاں لائی گئی ہیں۔

ڈاکٹر سعید میروانی نے بتایا کہ ہسپتال میں اب تک 100 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا ہے اور جن کی حالت تشویش ناک تھی، انہیں کوئٹہ منتقل کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ کیو مستونگ میں 20 زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر مستونگ عبدالرزاق ساسولی نے بتایا کہ سیکڑوں افراد پر مشتمل جلوس مدینہ مسجد سے شروع ہوا اور جب الفلاح روڈ پہنچا تھا کہ خودکش بمبار نے نشانہ بنایا۔

انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس عبدالخالق شیخ کے مطابق خودکش بمبار کو روکنے کے دوران دھماکہ ہوا جس میں ڈی ایس پی پولیس محمد نواز گشکوری ہلاک اور تین زخمی بھی ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکٹر اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا تعلق بھی صوبہ بلوچستان سے ہے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں آئندہ سال جنوری میں ہونے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

مستونگ میں تعینات ایک سینئیر سکیورٹی اہلکار جاوید بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “اس وقت تحقیقات کاسلسلہ جاری ہے اور شواہد اکھٹے کیے جارہے ہیں۔ دھماکے میں انتہائی شدت کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا، اسی لیے جانی نقصان زیادہ ہوا ہے۔ حملے میں ہلاک ہونے والے اکثر افراد مقامی شہری ہیں جو کہ مختلف قریبی دیہاتوں سے جلوس میں شرکت کے لیے مستونگ پہنچے تھے۔‘‘

تحقیقات جاری

جاوید بلوچ کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور کی باقیات تحقیقاتی ٹیم نے تحویل میں لے لی ہیں تاہم ابھی تک اس حملہ آور کی شناخت ممکن نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا، ” بلوچستان میں یہ دہشت گردی کی ایک تازہ لہر ہے جو کہ شاید اس لیے سامنے آئی ہے کیونکہ شدت پسند گروپوں کے خلاف صوبے بھر میں آپریشن تیزکردیا گیا ہے۔ چند دن قبل مستونگ میں دہشت گرد تنظیم داعش کے ایک اہم رکن غلام دین عرف شعیب کو بھی ایک مقابلے میں سکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا تھا۔ ”

جاوید بلوش کا مذید کہنا تھا کہ عسکریت پسند تنظیمیں صوبے میں ایسے اہداف کو نشانہ بنارہی ہیں، جن سے مذہبی اور لسانی منافرت پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ ان کے بقول، “بلوچستان کی مذہبی انتہا پسند کالعدم تنظیمیں اکثر اوقات نام بدل بدل کر بھی حملے کرتی رہی ہیں اس لیے یہ ممکن ہے کہ مستونگ کا تازہ حملہ بھی ایسے ہی حملوں کا ایک تسلسل ہو۔”

کالعدم ٹی ٹی پی کا بیان

ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ہنگو اور مستونگ میں ہونے والے خودلش حملے کی ذمہ داری سے انکار کردیا۔

ترجمان محمد خراسانی کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق انکی تنظیم اس واقعے میں ملوث نہیں ہے۔ انکے بقول ٹی ٹی پی کے دستور میں مدارس، مساجد، جنازہ گاہوں اور دیگر مقدس مقامات پر کسی بھی طرح کی کارروائی کی اجازت نہیں۔

مستونگ میں خودکش حملوں کی تازہ لہر

رواں ماہ مستونگ میں ہونے والا یہ دوسرا خودکش حملہ ہے۔ قبل ازیں، 14 ستمبر کو مستونگ کے نواحی علاقے کھڈکوچہ کے قریب پاکستان کے سابق حکمران اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمد اللہ کے قافلے پر بھی خود کش حملہ کیا گیا تھا ۔ اس حملے میں حافظ حمد اللہ سمیت 11 افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔

اس سے قبل 13 مئی 2017 کو مستونگ ہی کے علاقے میں سینیٹ کے سابق ڈپٹی چئیرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر بھی خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں 25 افراد ہلاک جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔

کیا بلوچستان میں داعش کا اثرورسوخ پھر بڑھ رہا ہے؟

سکیورٹی امور کے سینئرتجزیہ کار ڈاکٹر راشد احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان سمیت ملک کے دیگر قبائلی علاقوں میں حالیہ شورش کی تمام کڑیاں آپس میں ملتی ہیں ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “اس تمام صورتحال کو خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں عسکریت پسندی کو جس منظم انداز میں ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے مطلوبہ اقدامات شاید اب بھی ناکافی ہیں ۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ”بلوچستان پہلے ہی اس فالٹ لائن پر ہے، جہاں بیرونی مداخلت کی اطلاعات کی حکومتی سطح پر کئی بار تصدیق کی گئی ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی، جو پالیسی ہے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک زمینی حقائق کے مطابق اقدامات نہیں کیے جاتے یہ صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔”

ڈاکٹر راشد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے لیے حکومتی اداروں کو صوبے کی سیاسی اور قبائلی قیاد ت کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔

انہوں نے مذید کہا، ” بلوچستان کے سیاسی حالات ملک کے دیگر حصوں سے کافی مختلف ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ عسکریت پسند تنظیمیں بشمول مذہبی انتہاپسند گروہ اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیےحملوں میں تیزی لا رہی ہیں ۔ مستونگ بلوچستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں داعش کا اثر ورسوخ بہت زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کی وجہ سے تمام تر کوششو ں کے باوجود عسکریت پسندی میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔”

واضح رہے کہ بلوچستان میں پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے مختلف کارروائیوں کے دوران داعش خراسان نامی تنظیم کے کئی اہم ارکان بھی ہلاک کیے ہیں۔ داعش کے روپوش عسکریت پسندوں کی گرفتار ی کے لیے فوجی دستوں نے کچھ عرصہ قبل مستونگ کے ایک پہاڑی علاقے میں آپریشن کیا تھا۔

کوئٹہ سے مئی 2017ء میں دو چینی اساتذہ کو بھی داعش کے شدت پسندوں نے اغواء کیا تھا، ان مغویوں کی لاشیں ایک ماہ بعد مستونگ سے برآمد ہوئی تھیں۔

سکیورٹی فورسز اور طالبان میں جھڑپیں

اسی دوران پاکستانی فوج نے پاک افغان سرحد پر واقعے بلوچستان کے علاقے ژوب سمبازہ میں پاکستانی طالبان کے ساتھ جھڑپ میں چار سیکیورٹی اہلکار اور تین شدت پسندوں کے مارے جانے کی اطلاع دی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق عسکریت پسندوں اور فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ اس وقت ہوا جب حملہ اور افغانستان کی حدود سے پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔

مستونگ کہاں واقع ہے؟

مستونگ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ سے متصل جنوب میں واقع ایک ضلع ہے۔ یہ مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ضلع مستونگ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پرمشتمل ہے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ضلع مستونگ میں بھی بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

ضلٰع مستونگ میں رواں مہینے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ پربم حملہ ہوا تھا جس میں حافظ حمداللہ سمیت 13افراد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ مستونگ کے علاقے کانک میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی ایک بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 125سے زائد افراد ہلاک اور بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔

مستونگ میں رونما ہونے والے واقعات میں سے بعض کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں جبکہ بعض کہ ذمہ داری مذہبی شدت پسندتنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔

تاہم اس واقعے کی ذمہ داری فی الحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں