حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ حملوں پر عالمی ردعمل

غزہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/اے پی/رائٹرز) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا بھرپور حق حاصل ہے۔

فلسطینی علاقے غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب بڑی تعداد میں راکٹ داغے جانے اور مسلح افراد کے اسرائیلی علاقے میں گھس کر حملے کرنے کے بعد اسرائیل کی طرف سے اعلان جنگ کیا جا چکا ہے۔ اسرائیلی طیاروں نے غزہ پٹی کے علاقے میں حماس کے فوجی اہداف اور کمانڈ سنٹرز کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ پٹی کی وزارت صحت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے 232 کے قریب فلسطینی ہلاک جبکہ 1600 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق اسرائیل میں کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں کم از کم 100 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 900 سے زائد زخمی ہیں۔

عالمی رد عمل

حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملوں اور اسرائیل کے جوابی حملوں کے تناظر میں دنیا بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے حماس کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے بھرپور دفاع کا حق حاصل ہے۔ جبکہ زیادہ تر مسلم ممالک نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچائیں۔

مغربی ممالک کا ردعمل

امریکہ

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ حماس کے دہشت گردوں کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کے خلاف بلا اشتعال حملوں کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے اور یہ کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اس آپریشن کے سلسلے میں اسرائیل حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا، ”ہم اسرائیلی حکومت اور عوام کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں اور ان حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی شہریوں کے لیے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘

جرمنی

جرمن چانسلر اولاف شولز نے بھی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب حملوں کے بعد اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ شولز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ اسرائیل سے آج خوفناک خبریں ہمارے پاس پہنچ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم غزہ سے راکٹ داغے جانے اور پر تشدد واقعات میں اضافے سے شدید صدمے میں ہیں۔ اولاف شولز نے مزید لکھا کہ جرمنی حماس کے ان حملوں کی مذمت کرتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔

برطانیہ

برطانیہ نے فلسطینی تنظیم حماس کے اچانک حملے کی ’واضح طور مذمت‘ کی ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی کی طرف سے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ”برطانیہ حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں پر ہولناک حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ برطانیہ ہمیشہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرے گا۔‘‘

اس کے علاوہ یوکرین، فرانس، اور دیگر یورپی ممالک نے بھی حماس کے حملوں کے خلاف اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

مسلم دنیا کا رد عمل

سعودی عرب

سعودی عرب نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان پر تشدد کارروائیاں فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں شہریوں کو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سعودی عرب نے متنبہ کیا ہے کہ قبضے کا تسلسل، فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنا اور ان کے تقدس کے خلاف منظم اشتعال انگیزی کے واقعات کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ترکی

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نےانقرہ میں اپنی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”ہم تمام فریقوں سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘

قطر

قطری وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار صرف اسرائیل ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر دونوں فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں۔

مصر

مصر نے کہا ہے کہ وہ حماس اور اسرائیل کے درمیان صورتحال مزید بگڑے سے روکنے کے لیے عالمی سطح پر اثر رسوخ رکھنے والی پارٹیوں سے بھرپور رابطوں میں ہے۔ مصری وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزیپ بوریل سے بات کی ہے۔

ایران

ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر رحیم صفوی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران فلسطین اور یروشلم کی آزادی تک فلسطینی جنگجوؤں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں حیرت کا عنصر اور دیگر مشترکہ طریقے استعمال کیے گئے جو غاصب طاقت کے سامنے فلسطینی عوام کے اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔

دریں اثنا اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری اس تنازعے مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے قرارداد جمع کرا دی گئی ہے۔ توقع ہے کہ مالٹا کی جانب سے جمع کرائی گئی اس قراداد پر سلامتی کونسل کا اجلاس پیر آٹھ اکتوبر کو ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں