حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیل کی غزہ پر بمباری، 232 فلسطینی ہلاک، 2000 سے زائد زخمی

تل ابیب (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں کے بعد کم از کم 150 اسرائیلی ہلاک اور 900 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں جبکہ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں 232 افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔

یہ گذشتہ کئی برسوں میں اسرائیل فلسطین تنازع میں ہونے والی شدید ترین کشیدگی میں سے ایک ہے۔ عسکریت پسند گروپ حماس کے جنگجو صبح سحر کے وقت غزہ سے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ موٹر سائیکلوں، پیراگلائیڈرز اور کشتیوں پر بھی اسرائیل میں داخل ہوئے۔ ایسے کسی حملے کی اس سے پہلے نظیر نہیں ملتی۔

اسرائیلی دفاعی فورسز نے تصدیق کی ہے کہ حملوں کے بعد فلسطینی عسکریت پسندوں نے کئی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے تاہم ان کی تعداد کے بارے میں ابھی تصدیق نہیں کی گئی۔

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے غزہ سے اسرائیل پر راکٹ داغے ہیں۔ حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے۔ ‘

ادھر اسرائیل نے بھی حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کے بعد غزہ کی پٹی میں راکٹوں کے حملوں کے جواب میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے تنازع میں شامل فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ’بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں کا احترام کریں‘ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شہریوں اور طبی عملے کا تحفظ کیا جائے۔

بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسند گروپ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسلح افراد غزہ کی پٹی سے اچانک حملے میں جنوبی اسرائیل میں گھس آئے۔

اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنائے جانے کی اطلاعات

اسرائیلی میڈیا پر یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے کچھ اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے۔

خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘

یورپی ڈیپلومیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یرغمال بنائے جانے والوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘

یروشلم میں بی بی سی کے مشرق وسطی کے بیورو کے سربراہ جو فلوٹو کا کہنا ہے یہ بہت سے اسرائیلیوں کے لئے ایک ڈراؤنا منظر نامہ ہے۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ حماس نے فوجی اور سویلین دونوں طرح کے درجنوں افراد کو یرغمال بنایا ہے۔‘

خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ غزہ کی پٹی کے قریب کچھ چھوٹے قصبوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو جنھیں ہم جانتے ہیں کہ انھیں غزہ لے جایا گیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔‘

بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بیکر کے مطابق فلسطینی عسکریت پسندوں نے متعدد فوجی چوکیوں پر حملہ کیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں عسکریت پسندوں کو ایک نامعلوم اڈے کے اندر دکھایا گیا ہے، جس میں مرکاوا ٹینک (اسرائیل کی بری فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ٹینک) سمیت اسرائیلی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔

فلسطینی عسکریت پسند گروہ ماضی میں یرغمالیوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ عسکریت پسندوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔

اسرائیل نے سنہ 2011 میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر کے اپنے فوجی ’گلاد شیلت‘ کی رہائی کو یقینی بنایا تھا۔ تقریبا 200 افراد کو اسرائیل کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی یا حملے کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’بی سیلیم‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جون میں 4499 فلسطینی جیلوں میں قید تھے۔ ان میں غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے 183 افراد بھی شامل تھے۔

ہم حالتِ جنگ میں ہیں: بنیامن نتن یاہو

اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق جنوبی اسرائیل کے مختلف مقامات پر اسرائیلی اور فلسطینی افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کے خلاف اپنا دفاع کریں۔

فلسیطینی صدر رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔

بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق اسرائیل کے ایک حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ ’فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے منظّم انداز میں کیے جانے والے اس حالیہ حملے کے بعد اسرائیل میں اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا آغاز کیا جا رہا ہے کہ جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیسے اسرائیلی خفیہ ایجنسی اس کے بارے میں پتہ لگانے میں ناکام ہوئی۔‘

مصنف اور صحافی گیڈون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کے خیال میں فلسطینیوں کے ساتھ کوئی تصفیہ اب پہنچ سے باہر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں گھر سے باہر نکلا، سڑکیں ویران تھیں۔‘ ریستوراں، کیفے سب کچھ بند پڑے ہیں اور فضا خوف سے بھری ہوئی ہے۔‘

صحافی گیڈون لیوی نے مزید کہا کہ ’جب پہلا راکٹ گرا تو میں پارک میں جاگنگ کر رہا تھا، ااس وقت شور شرابہ دہلا دینے والا تھا۔‘

اسرائیلی انٹیلی جنس غزہ سے بڑے حملے روکنے میں کیسے ناکام رہی؟

فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کی ناکامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

سنیچر کے روز درجنوں مسلح فلسطینی اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے درمیان سخت حفاظتی حصار والی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اسی دوران غزہ سے اسرائیل پر مبینہ طور پر ہزاروں راکٹ داغے گئے۔

شین بیت، اسرائیلی انٹیلی جنس موساد، اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی اور اسرائیلی دفاعی افواج حتیٰ کہ کوئی بھی حماس کی جانب سے داغے جانے والے ان میزائلوں اور حملے کے بارے میں جاننے میں ناکام رہا، یہ امر انتہائی حیران کُن قرار دیا جا رہا ہے۔

اسرائیل کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ وسیع اور اچھی طرح سے مالی اعانت سے چلنے والی انٹیلی جنس سروسز موجود ہیں۔

ان کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ لبنان، شام اور دیگر جگہوں پر بھی موجود ہیں۔ انھوں نے ماضی میں عسکریت پسند رہنماؤں کا قتل عام کیا ہے اور وہ ان کی تمام نقل و حرکت کو قریب سے جانتے ہیں۔

غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ کیمرے، گراؤنڈ موشن سینسر اور فوج کا باقاعدگی سے گشت بھی ہوتا ہے۔

خاردار تاروں کی باڑ کو اس حملے میں ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لیے ایک ’سمارٹ بیریئر‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔

اس کے باوجود حماس کے عسکریت پسند اس راستے سے گزرتے ہیں، تاروں میں سوراخ کرتے ہیں یا پیراگلائڈر کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوتے ہیں۔

اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی ناک کے نیچے ہزاروں راکٹوں کو ذخیرہ کرنے اور فائر کرنے والے اس طرح کے مربوط اور پیچیدہ حملے کی تیاری اور اسے انجام دینے کے لیے حماس کی جانب سے غیر معمولی سطح کی آپریشنل سکیورٹی درکار ہونی چاہیے تھی۔

اسرائیلی حکام نے بی بی سی کے فرینک گارڈنر کو بتایا کہ ’ایک بڑی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس میں ہونے والے سوالات برسوں تک جاری رہیں گے۔‘

لیکن اس وقت اسرائیل کی ترجیحات زیادہ اہم ہیں۔ انھیں اپنی جنوبی سرحدوں کی دراندازی کو روکنے اور دبانے کی ضرورت ہے، حماس کے ان عسکریت پسندوں کو مُلک سے نکالنا اہم ہوگا جنھوں نے سرحدی اسرائیلی حصے میں متعدد مقامات کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اسرائیل کو ایسے میں اپنے ہی شہریوں کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہو گی جنھیں یرغمال بنایا گیا ہے۔

اور شاید اسرائیل کے لیے سب سے بڑی تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ وہ مغربی کنارے میں پھیلنے والی اس شورش کو روکنے اور ممکنہ طور پر لبنان کے ساتھ اپنی شمالی سرحد کے پار حزب اللہ کے بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں کو اپنی طرف راغب کرنے سے کیسے روکے گا؟

عالمی ردِ عمل

فلسطین کے عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اسرئیل پر ہونے والے حملے پر عالمی دُنیا کی جانب سے بھی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملوں کے بارے میں کہا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع اور شہریوں کو تشدد اور دہشت گردی سے بچانے کے لیے جس بھی قسم کی امداد کی ضرورت ہے وہ فراہم کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اسرائیل میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوں۔ اسرائیل اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اُس کے لیے ہماری حمایت اٹل ہے، اور میں گھناؤنے حملے میں اپنی جانیں گنوانے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔‘

فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے اسرائیل پر ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اُنھوں نے ’ان حملوں میں نشانہ بننے والے لوگوں اُن کے اہل خانہ اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘

جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’عام شہریوں کے خلاف راکٹ اور مزائل داغنے کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘

یورپی کمشن کی چیئرمین نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو ’دہشت گردی کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل قرار دیا۔‘

روسی نائب وزیر خارجہ کے مطابق ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

پورے جنوبی اسرائیل میں سائرن بج رہے ہیں جسے سنیچر کی صبح تل ابیب کے بڑے علاقے میں سنا جا سکتا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فائر فائٹرز اشکیلون شہر میں آگ بجھانے میں لگے ہیں جبکہ جلی ہوئی گاڑیوں سے دھویں کے گہرے مرغولے اٹھ رہے ہیں۔

اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ’دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد‘ اسرائیلی علاقے میں گھس آئی ہے اور آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔

اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’انھوں نے اب تک حماس کے 17 کمپاؤنڈز اور چار مراکز پر حملے کیے ہیں۔‘

بی بی سی نے اسرائیلی دفاعی افواج کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔

حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ 5000 کے علاوہ مزید 2000 راکٹ فائر کیے گئے جن کا حماس کے چیف کمانڈر نے اس آپریشن کے آغاز میں اعلان کیا تھا۔

’ہم ڈھائی گھنٹے سے نان سٹاپ فائرنگ دیکھ رہے ہیں۔‘

آئی ڈی ایف کے ترجمان ڈینیئل ہیگاری نے کہا ہے کہ حماس کو جنگ کے اعلان کے بعد واقعات کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور ان پر اس کی ذمہ داری عائد ہوگی۔

ان کے ایک ٹویٹ میں کہا گيا ہے کہ ’آئی ڈی ایف نے حالت جنگ میں الرٹ کا اعلان کیا ہے۔ غزہ سے اسرائیلی علاقے میں راکٹوں سے شدید فائرنگ شروع ہوئی اور دہشت گرد متعدد مختلف مقامات سے اسرائیلی حدود میں گھس آئے ہیں۔‘

’جنوب اور مرکز کے رہائشیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ محفوظ علاقوں کے قریب اور غزہ کی پٹی میں محفوظ علاقے میں ہوں۔ اس وقت، چیف آف سٹاف صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور انھوں نے آئی ڈی ایف کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے منصوبوں کی منظوری دی ہے۔‘

انڈیا میں اسرائیل کے سفیر نور گیلن نے ٹویٹ کیا کہ ’اسرائیل یہودیوں کی تعطیل کے دوران غزہ کی جانب سے مشترکہ حملے کی زد میں ہے۔ حماس کے دہشت گردوں کی راکٹ اور زمینی دراندازی دونوں طرف سے حملہ ہے۔ صورت حال سادہ نہیں ہے لیکن اسرائیل غالب آئے گا۔‘

دی گارڈین کے مطابق غزہ میں حماس کے فوجی کمانڈر محمد ضیف نے ایک بیان میں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے ایک نئے آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا ہے جہاں گذشتہ چند ہفتوں کے دوران یہودی زائرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی نئی کوششوں کا ‘یہ صرف پہلا مرحلہ ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’ہم نے دشمن کو متنبہ کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنی جارحیت کو ختم کرے۔۔۔ بغیر کسی جواب کے دشمن کی جارحیت کا دور اب ختم ہو گیا ہے۔ میں مغربی کنارے اور گرین لائن کے اندر ہر جگہ فلسطینیوں سے بلا روک ٹوک حملہ کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ میں ہر جگہ مسلمانوں سے حملہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2007 میں جب سے اسلام پسند گروپ نے 42 مربع کلومیٹر کی پٹی پر قبضہ کیا ہے اس علاقے کے حکمرانوں اور اس کے دیگر فعال دھڑوں کے خلاف چار جنگیں اور کئی چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہو چکی ہیں اور اس چیز نے غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے۔

اسرائیل کی ناکہ بندی کے بعد سے غزہ میں لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی بھی نہیں ہے، اور صحت کی دیکھ بھال، بجلی، صفائی اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں