کیا ایران نے اسرائیل پر حملے میں حماس کی مدد کی؟

تہران + واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز /وی او اے) اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملے کے بعد امریکہ نے ایران کو خبر دار کیا ہے کہ وہ اس تنازع میں ملوث ہونے سے باز رہے۔

امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل چارلس کیو براؤن نے پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ حالیہ تنازع کا دائرہ مزید بڑھے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ان کا یہ بیان ہفتے کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کے شمال میں لبنان کی ملیشیا حزب اللہ کی بمباری بعد سامنے آیا تھا۔ جنرل براؤن نے اس بیان میں ایران کو اس تنازع سے دور رہنے کا انتباہ کیا تھا۔

حزب اللہ کو ایران کی تائید اور مدد حاصل رہی ہے۔ اسی طرح حماس کی قیادت کے ساتھ ایران کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے تاحال اسرائیل پر حماس کے اچانک حملے میں ایران کے ملوث ہونے سے متعلق کسی خفیہ معلومات یا الرٹ ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

منگل کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تہران اسرائیل پر حماس کے حملوں میں ملوث نہیں۔ تاہم انہوں نے ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی اپنی تقریر میں حماس کے حملے کو سراہا ہے۔

تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حماس نے جس پیمانے پر یہ حملہ کیا ہے، اس میں ایران اور اس کے پراکسی گروپس کی معاونت کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔

حماس اور ایران کے تازہ ترین رابطے

ایرانی خبر رساں ادارے ‘تسنیم’ کی جاری کی گئی ایک خبر کے مطابق یکم ستمبر کو ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے لبنان میں حماس اور غزہ میں کام کرنے والے ایک چھوٹے عسکری گروہ ’اسلامی جہاد‘ کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں طرف کے رہنماؤں نے ’اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور فلسطین کی آزادی‘ پر زور دیا۔

واضح رہے کہ ایران فلسطینی عسکری گروپس کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران ہر سال حماس کو ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی مدد فراہم کرتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے 2021 میں جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایران حماس کو مالی، ہتھیاروں اور تربیت کی صورت میں مدد فراہم کررہا ہے اور اس کے علاوہ اسے بعض خلیجی ممالک کے ذریعے بھی مدد مل رہی ہے۔

ایرانی قیادت سے رواں برس ستمبر میں ہونے والے رابطے کے بعد اکتوبر میں ہی میں لبنان میں حماس کے نمائندے اسامہ حمدان تہران میں ہونے والی اسلامک یونٹی کانفرنس میں شریک ہوئے۔

چار اکتوبر کو ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کی جاری ہونے والی خبر کے مطابق کانفرنس کے شرکا سے بات کرتے ہوئے حمدان نے تمام اسلامسٹ پارٹیوں پر زور دیا کہ وہ القدس (یروشلم) کو آزاد کرانے لیے ہر ممکن کوششوں کا آغاز کریں۔

اس کانفرنس کی افتتاحی تقریب کی جاری ہونے والی تصویر میں حمدان کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

امریکہ میں کام کرنے والے گروپ ’یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلیئر ایران‘ کے پالیسی ڈائریکٹر جیسن براڈسکی نے وی او اے فارسی سے بات کرتے ہوئے کہا حماس اور ایران کی قیادت میں حالیہ رابطے ان دونوں کے درمیان ’غیر معمولی تعاون‘ کی نشان دہی کرتے ہیں۔

سات اکتوبر کو حماس کا اسرائیل پر حملہ شروع ہونے سے چار دن قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر اسرائیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوسٹ کیا تھا کہ ’’قابض ریجیم ختم ہونے والی ہے۔‘‘

انہوں نے اس پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’’آج، فلسطینی نوجوان، جبر مخالف، قبضہ مخالف تحریک فلسطین میں گزشتہ 70 یا 80 برسوں کے مقابلے میں مزید توانا ہے، مزید متحرک اور مزید تیار ہے۔ خدا نے چاہا تو یہ تحریک اپنے اہداف حاصل کرے گی۔‘‘

حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہفتے کو ہونے والے حملے کے فوری بعد ایرانی حکام نے ان کارروائیوں کی تحسین شروع کردی تھی اور حماس کی حمایت میں بیانات بھی دیے۔

وقت اہم ہے!

وائس آف امریکہ فارسی سے گفتگو کرتے ہوئے کئی مبصرین کا کہنا تھا کہ اس موقعے پر ایران کے لیے حماس کی مدد کرنے کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں۔

میزوری اسٹیٹ یونیورسٹی میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاسیات کے پروفیسر ڈیوڈ رامانو کا کہنا تھا کہ ایران میں قائم حکومت فلسطینوں کی حمایت کو اپنے وجود کے جواز کے طور بھی پیش کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ایران میں عوامی سطح پر حکومت کو احتجاج کا سامنا ہے۔ اس لیے اپنے حامی حلقوں میں اپنی تائید مزید پختہ کرنے کے لیے انہیں کوئی بڑا ایشو درکا ر تھا جو حالیہ صورتِ حال سے انہیں مل جائے گا۔

ایران میں قائم اسلامسٹ حکومت کو اپنے 44 سالہ اقتدار میں اس وقت سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں ایرانی خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد ایران کے طول و عرض میں حکومت کے خلاف کے اٹھنے والی احتجاجی لہر میں اب تک درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں قید ہیں۔

لندن میں مقیم مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر علی رضا نوری زادہ کا کہنا ہے کہ ایران کی ممکنہ حمایت کا ایک بڑا محرک اسرائیل اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی قربت ہے۔ اسرائیل کی طرح سعودی عرب بھی ایران کا حریف ہے۔

گزشتہ ماہ اسرائیل کے دو وزرا نے ریاض کا دورہ کیا تھا جو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

امریکہ بھی ابراہام اکارڈ میں ثالثی کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے قیام کی کوشش کررہا ہے۔ ابراہام اکارڈ میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔

نوری زادہ کا کہنا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم ہونے سے خوف زدہ ہیں۔

واضح رہے کہ تہران اور ریاض نے رواں برس چین کی ثالثی سے تعلقات بحال کرنا شروع کیے تھے جن کے نتیجے میں سات برس بعد دونوں نے اپنے سفارت خانے بھی کھول دیے ہیں۔

جیسن براڈسکی کے نزدیک رواں برس ایران میں جاری داخلی سیاسی بحران بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔

ان کے مطابق ممکنہ طور پر ایران نے اندازہ لگایا ہو گا کہ عدالتی اصلاحات کی وجہ سے بن یامین نیتن یاہو کو درپیش چلینجز کی وجہ سے کوئی پیش قدمی زیادہ نتائج لاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی داخلی حالات اور ابراہام اکارڈ سے متعلق ایران کے بڑھتے تحفظات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ان حالات نے ایران کو اسرائیل کے خلاف بڑے خطرات مول لینے کی راہ پر ڈالا ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں