کینیڈا نے 41 سفارت کاروں کو بھارت سے واپس بلا لیا

اوٹاوا (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی/ڈی پی اے) کینیڈا نے یہ فیصلہ ان الزامات کے درمیان کیا ہے کہ وینکوور کے قریب ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ اس واقعے کی وجہ سے اوٹاوا اور نئی دہلی کے درمیان سفارتی تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔

کینیڈا نے جمعرات کے روز بتایا کہ اس نے بھارت کی جانب سے اس کے حکام کی استشنائی حیثیت کو منسوخ کرنے کی دھمکی کے بعد اپنے 41 سفارت کاروں کو واپس بلالیا۔

یہ معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی کشیدگی کے درمیان پیش آیا ہے، جب اوٹاوا نے نئی دہلی پر وینکوور کے مضافات میں ایک گردوارے کے باہر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

کینیڈا نے کیا کہا؟

کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیے جولی نے جمعرات کو کہا کہ ان کے 62 میں سے 41 سفار ت کاروں کو نئی دہلی سے واپس بلالیا گیا ہے۔ ان سفارت کاروں کے ساتھ ان کے 42 لواحقین بھی واپس آگئے ہیں۔

انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، “ہمارے سفارت کاروں کی حفاظت کے حوالے بھارت کے اقدامات کے مضمرات کے مدنظر ہم نے ان کی بھارت سے بحفاظت واپسی کی سہولیات فراہم کی ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ کینیڈا کے 21 سفارت کاروں کو سفارتی استشنٰی دی گئی ہے جو بھارت میں ہی رہیں گے۔

کینیڈا کی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ،” اگر ہم سفارتی استشنٰی کے اصول کو توڑنے کی اجازت دیتے ہیں تو کرہ ارض پر کہیں بھی کوئی سفارت کار محفوظ نہیں رہے گا۔ اس وجہ سے ہم اس کا بدلہ نہیں لیں گے۔”

ایسی نوبت کیوں آگئی؟

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے الزام لگایا تھا جس کے بعد بھارت نے اپنے یہاں کینیڈا سے سفارتی موجودگی کو کم کرنے کے لیے کہا تھا۔

سکھ علیحدگی پسند رہنما نجر، جن کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ ان کے دہشت گردوں سے رابطے تھے، کو جون میں ایک گردوارے کے باہر گولی مار کرہلاک کردیا گیا تھا۔ نجر کے پاس کینیڈا اور بھارت کی دوہری شہریت تھی۔

نئی دہلی نے ٹروڈو کے شبہات کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ اس کے بعد بھارت کی وزارت خارجہ نے اوٹاوا سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں اپنے سفارت کاروں کی تعداد کم کرے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے یہ دلیل دی تھی کہ ان کی تعداد کینیڈا میں بھارتی عملے سے زیادہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں