سعودی شہزادے کی اسرائیل اور حماس دونوں پر تنقید جو اس تنازع پر شاہی خاندان کا موقف بتاتی ہے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) سعودی شاہی خاندان کے بزرگ رکن شہزادہ ترکی بن فیصل آل سعود نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر بے تکلف تقریر کی جو معمول کی بات نہیں ہے۔

اس بیان کو سعودی شاہی خاندان کا موقف سمجھا جا رہا ہے۔

شہزادہ ترکی کو سعودی حلقوں میں بڑے پیمانے پر ایک قابل احترام بزرگ سیاستدان مانا جاتا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری پر انھوں نے دونوں فریقین اسرائیل اور حماس پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سب میں کوئی ’ہیرو‘ نہیں، صرف ’متاثرین‘ ہیں۔

اسرائیلی حملوں کے خلاف عرب دنیا میں کافی غصہ ہے۔ ایسے ماحول میں شہزادہ ترکی کی حماس پر تنقید ایک نایاب رائے ہے۔ شہزادہ ترکی یہ تقریر امریکہ کی رائس یونیورسٹی میں امریکی شرکا کے سامنے کر رہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ حماس کی طرف سے کیے گئے اقدام اسلامی احکامات کے خلاف ہیں جو غیر مسلح عام شہریوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرتے ہیں۔ حماس کے حملے میں یرغمال اور مارے جانے والے اکثریت لوگ عام شہری ہیں۔

سابق سفارتکار اور انٹیلیجنس چیف نے اسرائیل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے ’غزہ میں معصوم فلسطینی شہریوں پر اندھا دھند بمباری‘ اور ’مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کی گرفتاری‘ کا الزام لگایا۔

انھوں نے 7 اکتوبر کے حملے کے حوالے سے امریکی میڈیا کی جانب سے ’بلا اشتعال حملہ‘ کے جملے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’اس سے بڑھ کر اشتعال انگیزی اور کیا ہے، جو اسرائیل نے 75 برسوں سے فلسطینی عوام کے ساتھ کیا ہے؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان تمام لوگوں کو مزاحمت کا حق ہے جن کی زمین پر فوجی قبصہ ہے۔

شہزادہ ترکی نے مغربی سیاست دانوں کی بھی مزمت کی جو ’فلسطینیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اسرائیلیوں‘ پر تو آنسو بہاتے ہیں لیکن وہ ’جب اسرائیلی فلسطینیوں کو مارتے ہیں تو افسوس کا اظہار کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے دورے کے دوران کہا تھا کہ امریکہ نے تمام بے گناہ متاثرین پر سوگ منایا ہے۔

تو ان کی تقریر کا مقصد کیا تھا؟ شہزادے کو یقیناً اس بات کا اندازہ تھا کہ ان کی تقریر میڈیا پر کافی چلے گی۔

اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ انھوں نے کوئی بھی بات شاہی دربار کی منظوری کے بغیر کی ہے جسے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان چلاتے ہیں جنھوں نے جمعرات کو برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے ملاقات کی۔

شہزادہ ترکی کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ ان کے والد شاہ فیصل سنہ 1975 میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کے بھائی سعودی عرب میں طویل عرصے تک وزیر خارجہ رہے۔ وہ سنہ 2015 میں اپنی موت تک اس عہدے پر رہے۔

شہزادہ ترکی کی پرنسٹن، کیمبرج اور جارجٹاؤن یونیورسٹی میں امریکی اور برطانوی تعلیم نے مغربی ثقافت اور سوچ کے بارے میں ایک انمول نقطہ نظر فراہم کیا ہے اور ساتھ ہی انھیں واشنگٹن اور وائٹ ہال میں فیصلہ سازوں کے درمیان تاحیات رابطے فراہم کیے۔

وہ بعد میں سعودی عرب کے انٹیلیجنس چیف بنے اور 24 سال تک افغانستان کی خصوصی ذمہ داری کے ساتھ فارن انٹیلیجنس کا شعبہ چلاتے رہے۔

سنہ 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد وہ پہلے لندن اور بعد میں واشنگٹن میں بطور سعودی سفیر تعینات رہے۔

لندن میں ان کے میڈیا ترجمان صحافی جمال خاشقجی تھے جنھیں سنہ 2018 میں سعودی حکومت کے ایجنٹس نے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا تھا۔ سعودی عرب نے اس کا الزام ایک غیر مجاز ’روگ آپریشن‘ پر لگایا۔

شہزادہ ترکی کی عمر 78 سال ہے اور ان کے پاس سعودی حکومت کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب وہ بین الاقوامی فورمز پر تقریر کرتے ہیں تو وہ سعودی شاہی خاندان کے بارے میں دلچسپ بصیرت فراہم کرتے ہیں۔

سعودی عرب کے حکمران حماس کو پسند نہیں کرتے۔ درحقیقت خطے کی بہت سی حکومتیں بھی اسے پسند نہیں کرتیں۔ مصر، اردن، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمران حماس اور اس کے نام نہاد ’سیاسی اسلام‘ کے انقلابی برانڈ کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

حماس نے سنہ 2007 میں یاسر عرفات کی فتح پارٹی پر مبنی فلسطینی اتھارٹی کا مؤثر طریقے سے غزہ سے صفایہ کر دیا تھا۔ اس کے کچھ ارکان کو ایک مختصر مدت کے تنازع کے دوران اونچی عمارتوں کی چھتوں سے پھینک دیا گیا تھا۔

اگرچہ حماس کا قطر میں سیاسی دفتر قائم ہے لیکن اس کا اصل حمایتی ایران ہے جو طویل عرصے سے سعودی عرب کا حریف ہے۔

اگرچہ سعودیوں اور ایرانیوں نے اس سال مارچ میں باضابطہ طور پر اپنے تنازع کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن ان کے درمیان کافی باہمی عدم اعتماد برقرار ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے مشترکہ طور پر غزہ پر اسرائیل کی بمباری کی مذمت کی ہے اور فلسطینی ریاست کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

اب یقین کرنا مشکل ہے لیکن حماس کے حملے سے قبل سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے راستے پر تھا، جیسا کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے کیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی کے لیے رُک گیا ہے۔

کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ جزوی طور پر اس عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو پٹڑی سے اتارنے کی خواہش کے نتیجے میں ہوا جس کی وجہ سے حماس اور ایران نئے مشرق وسطیٰ میں اکیلے رہ جاتے۔

کیا خطے میں حالات واپس ویسے ہو جائیں گے جیسے حماس کے حملے سے پہلے تھے؟

ابھی ایسا ہوتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہا۔ اسرائیل کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ بے چین عرب حکومتیں سڑکوں پر بڑھتے ہوئے اسرائیل مخالف مظاہروں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

لیکن جب غزہ میں تنازع ختم ہو گا تو شاید سعودی عرب ہی وہاں کی تعمیر نو کے لیے فنڈنگ کرے گا۔ جو بھی مستقبل میں ہونے جا رہا ہے اس پر سعودی نقطہ نظر سمجھنے کے لیے شہزادہ ترکی کی تقاریر دیکھنے کے قابل ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں