چمن: پاک افغان سرحد پر احتجاجی دھرنا، مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار

کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) غیر قانونی افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے لیے مقررہ مدت یکم نومبر کو ختم ہو رہی ہے، جس میں توسیع کا تاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ دریں اثنا اس فیصلے کے خلاف بلوچستان میں پشتون سرحدی قبائل کا احتجاج زور پکڑ چکا ہے۔

پاکستان سےغیرقانونی افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے فیصلے کے خلاف بلوچستان میں پشتون سرحدی قبائل کا احتجاج زور پکڑ گیا۔ چمن میں پاک افغان سرحد پر ہزاروں لوگ حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاجی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ مظاہرین کہتے ہیں افغانستان میں حالات سازگار نہیں اسی لیے مہاجرین کی ملک واپسی کے فیصلے کا از سرنو جائزہ لیا جائے۔

پاکستان سے غیرقانونی افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے لیے مقررہ مدت یکم نومبر کو ختم ہورہی ہے، جس میں توسیع کا تاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے ۔

حکام کہتے ہیں کہ مقررہ مدت کے بعد غیرقانونی مہاجرین کو فارن ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں کے دوران 10 ہزار سے ذائد افغان مہاجر پاکستان کے مختلف حصوں سے واپس اپنے ملک رضاکارانہ طور پر منتقل ہوچکے ہیں ۔

سرحدی قبائل نے پاک افغان سرحد پرآمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم ہونے تک احتجاجی دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔

افغان مہاجرین کی واپسی پر پشتون قوم پرست جماعتوں کے تحفظات

چمن میں جاری احتجاجی دھرنے میں مقامی قبائل کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی بڑے پیمانے پر شریک ہیں۔ پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے سینئر رہنماء اور سابق صوبائی وزیرعبدالرحیم زیارتوال کہتے ہیں موجودہ حکومت پاک افغان سرحد پر آباد پشتون قبائل کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے خطے میں سلامتی کی صورتحال مذید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرحیم زیارتوال نے کہا، ”پشتون قبائل پاکستان میں ہمیشہ سے ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ حکومت کے حالیہ فیصلے سے بھی سب سے زیادہ ہمارے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر آباد قبائل چاہتے ہیں کہ انہیں ماضی کی طرح آمدورفت میں آسانیاں فراہم کی جائیں۔ حکومت نے یکم نومبرسے آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی جو شرط عائد کی ہے، اس سے سرحد کے دونوں اطراف کے لوگ بری طرح متاثر ہوں گے۔ ڈیورنڈ لائن کو ہم نے کبھی تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی آئندہ تسلیم کریں گے۔‘‘

زیارتوال کا مزید کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے حکومتی پالیسی تضادات کا شکار ہے جبکہ اس معاملے میں عجلت سے کام لیا جا رہا ہے، جس سے ملکی حالات بہتری کے بجائے مزید خراب ہو سکتے ہیں ۔

عبدالرحیم زیارتوال کا کہنا ہے، ”افغان مہاجرین کی یہاں اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں ہیں۔ تین چار دہائیوں سے یہ لوگ یہاں آباد ہیں۔ ایک ماہ کے اندر یہ لوگ کسی طرح سب کچھ چھوڑ کر افغانستان چلے جائیں؟ پاکستانی حکومت زمینی حقائق کو نظرانداز کر رہی ہے۔ سیاسی بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق فیصلے کیے جائیں تاکہ لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔ ‘‘

دھرنا مظاہرین کیا چاہتے ہیں ؟

پاک افغان سرحد پرجاری احتجاجی دھرنے میں شریک مقامی قبائلی رہنماء دارو خان اچکزئی کہتے ہیں کہ دھرنا مظاہرین اپنے مطالبات پرکسی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران اچکزئی کا مزید کہنا تھا، ”پاک افغان سرحد پر جاری اس احتجاجی دھرنے کا انعقاد اس طویل سرحد کے دونوں اطراف آباد پشتون قبائل کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ ہم نے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر نئے امیگریشن نظام کو ہم کسی صورت تسلیم نہیں کرسکتے۔ یہاں سرحدی تنازعات کی ایک بڑی وجہ بھی یہی حکومتی اقدامات ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ سرحد پر لوگوں کو تجارت کی اجازت دی گئی ہے لیکن ہمیں اب اس سے بھی محروم کیا جا رہا ہے ۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے کاروبار بند پڑا ہے اور پشتون تاجرکروڑوں روپے کے نقصانات سے دوچار ہو رہے ہیں۔‘‘

دارو خان کا یہ بھی کہا ہے کہ افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے حوالے سے حکومتی فیصلے کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ مہاجرین کی زندگی مزید تباہی سے دوچار نہ ہو۔ انہوں نے کہا، ”حکومت بلاوجہ الجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں سے افغان مہاجر اپنا سب کچھ چھوڑ کرافغانستان جائیں گے تو رہیں گے کہاں۔ ان کے لیے وہاں رہائش یا دوبارہ آبادکاری کے لیے افغان حکومت نے بھی اب تک کوئی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔ میرے خیال میں اگر حکومت ایسا کوئی فیصلہ کرتی بھی ہے تو اس ضمن میں پہلے افغان حکومت سے بات کرکے حالات کو سازگار بنایا جائے۔‘‘

پاک افغان سرحد پر دھرنا مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار

بلوچستان میں فوج کے سربراہ اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے بھی آج چمن کا خصوصی دورہ کیا اور دھرنا عمائدین سے ملاقات کی۔

دھرنا مظاہرین نے حالیہ صورتحال کے تناظر میں کمانڈر سدرن کمانڈ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے دھرنا مظاہرین کے مطالبات کی منظوری پر کوئی آمادگی ظاہر نہیں کی، جس کی وجہ سے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے ہیں۔

گزشتہ روز بلوچستان کے نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی اور دھرنا مظاہرین کے درمیان ہونے والے طویل مذاکرات بھی بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوئے تھے۔

دھرنا مظاہرین نے پاک افغان سرحد پر پاکستان کے نئے امیگریشن قوانین کے نفاذ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ سرحد پر آباد قبائل کے لوگوں کو بغیر سفری دستاویزات آمدورفت کی اجازت دی جائے۔

واضح رہے کہ غیرقانونی مہاجرین کی ملک واپسی کے حوالے سے دی گئی ڈیڈ لائن کے قریب آتے ہی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی مہاجرین کی گرفتاریوں کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں پکڑے گئے سینکڑوں مہاجرین میں اکثریت ان افغان شہریوں کی ہے جو کہ بغیر دستاویزات کے پاکستان میں مقیم تھے۔

فارن ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والے افغان مہاجرین کو ضروری کارروائی کے بعد مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ یکم نومبر کے بعد گرفتار افراد کو مرحلہ وار سرحد پر تعینات افغان حکام کے حوالے کیا جا ئے گا۔

دو یوم قبل بلوچستان کے علاقے وڈھ سے بلوچ قوم پرست جماعت بی این پی مینگل کی جانب سے بھی کوئٹہ تک احتجاجی مارچ کیا گیا تھا۔ لانگ مارچ سے خطاب کے دوران بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ریاست اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بی این پی نے 30 اکتوبر کو حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں