غزہ میں زمینی آپریشن میں اسرائیل کی تاخیر امریکہ کے مفاد میں کیسے ہے؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے غزہ میں زمینی آپریشن کا مبہم اعلان امریکہ کے مفاد میں ہے اور یقینی طور پر اس کے زیر اثر دیا گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے غزہ میں زمینی کارروائی شروع کرنے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی لیکن امریکہ میں بی بی سی کے معاون براڈکاسٹر سی بی ایس کو معلوم ہوا ہے کہ اس میں تاخیر کی گئی ہے۔

واشنگٹن اس تنازعے میں اپنے کردار کے بارے میں محتاط رہا ہے، لیکن اسرائیل کے زمینی آپریشن میں تاخیر کے فوائد کے بارے میں واضح ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو کہا کہ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو نیتن یاہو کو حماس کی جانب سے مزید یرغمالیوں کی رہائی تک انتظار کرنا چاہیے، ’لیکن میں اس کا مطالبہ نہیں کرتا۔‘

ان کے یہ تبصرہ فلسطین اسرائیل جنگ سے متعلق امریکی نقطہ نظر کا احاطہ کرتا ہے۔ اکتوبر کے شروع میں اسرائیلی شہریوں پر غیر معمولی حملے کے بعد حماس کو ختم کرنے کے اسرائیل کے عزم کی مکمل حمایت اور اس کے ردعمل کے نتائج کے بارے میں خدشات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

امریکی انتظامیہ یقیناً حماس سے اسرائیلی یرغمالیوں کو چھڑانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتی اور کسی بھی ممکنہ موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن اگر اسرائیل نے غزہ پر زمینی کارروائی کا آغاز کر دیا تو اس کا امکان ختم ہو جائے گا۔

اس وقت حماس کے پاس امریکی شہریوں سمیت 200 سے زیادہ یرغمالی موجود ہیں اور حالیہ دنوں میں چار یرغمالیوں کی رہائی نے یہ امید دلائی ہے کہ باقیوں کو بھی رہائی مل سکتی ہے۔

لیکن پینٹاگون کے لیے سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے عراق اور شام میں امریکی افواج پر حملوں کے بعد خطے میں جلد سے جلد دفاعی نظام کو لانا ہے۔

غزہ پر حملوں کے بعد سے علاقائی کشیدگی کے خدشات بڑھ گئے ہیں اور امریکہ اس تاخیر کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

امریکی دفتر خارجہ نے پہلے ہی عراق اور لبنان میں سفارت خانوں سے غیر ضروری عملے کو واپس آنے کی اجازت دے دی ہے کیونکہ یہاں حزب اللہ کی جڑیں مضبوط ہیں اور وہ اسرائیل کے ساتھ سرحد پار راکٹ حملوں کا تبادلہ کر رہی ہیں۔

اور اگر ضرورت پڑی تو خطے میں امریکی شہریوں کے وسیع پیمانے پر انخلا کے لیے ہنگامی منصوبے بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔

امریکی دفتر خارجہ صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے سفارت کاری کے سب سے مشکل دور میں مصروف ہے۔

جنگ بندی کے مطالبے

اقوام متحدہ میں امریکہ کی طرف سے پیش کردہ ایک قرارداد اس تنازعے میں امریکہ کے بدلتے ہوئے نقطہ نظر کا خلاصہ کرتی ہے۔

غزہ پر اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی بحران نے اسرائیل کی جانب سے حماس کو سبق سکھانے والے امریکی بیانیے کو تبدیل کیا ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’ہم نے تجاویز کی درخواست کی۔ ہم نے سب کو سنا۔ ہم نے تمام (سکیورٹی) کونسل کے اراکین کے ساتھ بات چیت کی تاکہ اس قرار داد میں انسانی ہمدردی کے تحت جنگ بندی اور وہاں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کے تحفظ‘ کی تجاویز کو شامل کیا جا سکے۔‘

البتہ چین اور روس کی جانب سے یہ قرار داد ویٹو کر دی گئی کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس میں جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔

امریکہ کے عرب اتحادی ممالک مصر، سعودی عرب، لبنان، اردن، متحدہ عرب امارات اور فلسطینی اتھارٹی سب سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد، لڑائی کو روکنے کا ایک ساتھ مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان میں سے بہت سے ممالک حماس کے حمایتی نہیں ہیں اور کچھ اس کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ اور وہاں شدید بمباری کی وجہ سے ان کا یہ ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ اس وقت جنگ بندی ’صرف حماس کو فائدہ دے گی۔‘

اگرچہ سلامتی کونسل کی قرارداد میں بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے کی ضرورت کے بارے میں سخت زبان استعمال کی گئی ہے، مگر محکمہ خارجہ نے اس بارے میں کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا ہے کہ آیا اسرائیل درحقیقت ایسا کر رہا ہے، کیونکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ غزہ پر شدید بمباری کی وجہ حماس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں فضائی حملوں سے شہر کے تمام علاقے تباہ ہو چکے ہیں اور سات اکتوبر سے اب تک سات ہزار سے زیادہ شہری مارے گئے ہیں، جن میں ایک تہائی بچے ہیں۔

امریکی صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ انھیں فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار پر ’کوئی اعتماد‘ نہیں ہے۔ جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر اپنے بیان پر قائم ہیں کہ اسرائیل ’جائز فوجی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے جو شہری انفراسٹرکچر کی آڑ لے رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ غزہ کے اندر شہریوں کے لیے محفوظ زون قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تاہم اس معاملے میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے لیکن امریکہ غزہ میں مصر کی سرحد سے کچھ امداد پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے اور اب دن رات اس کو بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

’یہ تنازع ایک پہیلی کی طرح ہے‘

امریکی صدر بائیڈن نے ایک تجربہ کار سفارت کار ڈیوڈ سیٹر فیلڈ کو اس کام کے لیے مقرر کیا۔ وہ امریکی اور دیگر غیر ملکی شہریوں کے ساتھ فلسطینیوں کے انخلا کو بھی منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ کتنا پیچیدہ ہے۔ ہم اسرائیل، مصر اور حماس کے ساتھ معاملات طے کر رہے ہیں اور ہم حماس سے براہ راست بات نہیں کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک پہیلی کی طرح ہے، جہاں آپ ایک گرہ کو کھولتے ہیں اور پھر ایک اور گرہ آ جاتی ہے اور آپ کو تمام فریقین کے ساتھ مل کر یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ اس پہیلی کو کیسے سلجھایا جائے۔‘

یہ واضح نہیں ہے کہ اگر ایک بار اسرائیل کی جانب سے غزہ پر زمینی حملہ شروع ہو گیا تو اس نوزائیدہ انسانی راہداری کا کیا بنے گا۔ لیکن واشنگٹن اس حوالے سے اسرائیل کی حکمت عملی کو لے کر اس پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائڈر کا کہنا ہے کہ امریکہ نے عراق میں شہری لڑائی کا تجربہ رکھنے والے امریکی فوجی افسران کو اسرائیلی فوج سے کچھ مشکل سوالات پوچھنے کے لیے بھیجا ہے اور اسرائیلی فوج کو ان پر مختلف حالات کی منصوبہ بندی کے دوران غور کرنا چاہیے۔ جن میں شہری ہلاکتوں کو کم کرنے سے متعلق تجاویز بھی شامل ہیں۔‘

ہارورڈ یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر سٹیفن والٹ کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے تنازعے کے بارے میں حقیقی خدشات کے ساتھ ساتھ، امریکہ اسرائیل کی حمایت میں اپنے ابتدائی ’یک طرفہ ردعمل‘ کے بعد تنقید آنے پر شاید اپنے موقف کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ممکن ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ ہوں کہ یہ تنازع امریکہ یا اسرائیل کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تمام درست وجوہات کے باعث گلوبل ساؤتھ کے زیادہ تر حصے میں ہمیں شدید منافق کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف ہم یوکرین پر روسی قبضے کی مخالفت کرتے ہیں اور دوسری طرف 50، 60 سال سے (فلسطینیوں پر) اسرائیلی قبضے کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں۔‘

امریکی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ حماس کے اس حملے کی شدت اور بربریت کی مخالفت کرتی ہے جس میں 1,400 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

لیکن اس تنازعے میں امریکہ کی مداخلت سے پتہ چلتا ہے کہ اسے خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل حماس کے خلاف جنگ جیت بھی جاتا ہے لیکن جب رائے عامہ اور خطے میں اس کے نقصانات کی بات کی جائے تو وہ جنگ ہار سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں